مدھیہ پردیش: گھوٹالوں کے لگاتار انکشافات سے بی جے پی پریشان، اب صرف پولرائزیشن کا سہارا

شیوراج کے دور میں ہوئے گھوٹالوں سے لگاتار پردہ اٹھ رہا ہے اور اس نے بی جے پی کے لیے پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ بی جے پی کے کئی لیڈر الیکشن میں کھڑے ہونے سے کترا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مدھیہ پردیش میں جیسے جیسے شیوراج کے دور میں ہوئی بدعنوانی کی پرتیں کھل رہی ہیں، ویسے ویسے پارٹی میں یہ اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا انتخاب میں بھی اسے بڑا جھٹکا لگے گا۔ ایسے میں سادھوی پرگیا کو جس طرح بی جے پی نے بھوپال سے اپنا امیدوار مقرر کیا، اس سے صاف ہے کہ پارٹی کے پاس فرقہ وارانہ پولرائزیشن کر انتخاب جیتنے کی کوشش کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔

دراصل ای ٹنڈرنگ اور ماکھن لال یونیورسٹی میں ہوئے گھوٹالوں پر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تو کئی بی جے پی لیڈر پریشان ہیں۔ بڑے ٹنڈر کی آخری اجازت دینے والے بورڈ میں وزیر اعلیٰ ہی مکھیا ہوتے ہیں، اس لیے شیوراج کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ریاست میں گزشتہ 15 سال کے بی جے پی حکومت میں قریب 13 سال شیوراج وزیر اعلیٰ رہے۔ ای ٹنڈرنگ گھوٹالے کی مدت گزشتہ چار سال کی مانی جا رہی ہے۔
معاملے کی جانچ کر رہی ٹیم کے پاس روزانہ ہی نئی نئی جانکاریاں آ رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ای ٹنڈرنگ میں صرف چار کمپنیوں کو ہی سب سے زیادہ ٹنڈر ملے۔ یہ چاروں کمپنیاں سینئر آئی اے ایس افسروں کے بچوں، رشتہ داروں کو بڑی تنخواہ پر ملازمت دیتی تھی۔ اس طرح ان کمپنیوں کے لوگوں کی مختلف محکموں میں اعلیٰ سطح تک رسائی ہو جاتی تھی۔

ان میں سے ایک کمپنی حیدر آباد کی بھی ہے۔ اسے تقریباً 1386 کروڑ روپے کے 16 ٹنڈر ملے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس کمپنی میں بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے بھی شیئر ہیں۔ ان دنوں ان نیتا جی کا درجہ کافی اونچا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک جس طرح کے دستاویز ملے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ ان ٹنڈروں میں خوب بے ضابطگیاں کی گئیں۔ سب سے زیادہ ٹنڈر آبی وسائل محکمہ، پی ڈبلیو ڈی اور پی ایچ ای ڈی کے ذریعہ الاٹ کیے گئے۔ شیوراج دور کی جس مدت میں یہ ٹنڈر جاری کیے گئے ہیں، اس وقت نروتم مشرا آبی وسائل کے وزیر تھے۔ کابینہ میں ان کی حیثیت نمبر دو کی تھی۔ وہیں رام پال سنگھ پی ڈبلو ڈی کے وزیر تھے جب کہ کسم میہدیلے پی ایچ ای محکمہ کی وزیر۔

ریاست کا اکونومک انوسٹی گیشن بیورو پورے معاملے کی گہرائی سے چھان بین میں مصروف ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹنڈر ایپروول کے پورے عمل کی تفصیل جمع کیے جا رہے ہیں۔ اب تک جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق سینکڑوں کروڑ روپے کے یہ ٹنڈر آخری ایپروول کے لیے اس بورڈ کے پاس بھیجے جاتے تھے جس کے سربراہ خود وزیر اعلیٰ ہوتے تھے۔ اس گھوٹالے میں اکونومک انوسٹی گیشن بیورو نے نامعلوم افسران اور نامعلوم وزراء کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ جن کمپنیوں کے اس میں شامل ہونے کا شبہ ہے، اس خبر کو لکھنے کے وقت تک ان کے چار افسران کو ایف آئی آر کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔

بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے این تیواری کا کہنا ہے کہ ملزمین سے پوچھ تاچھ کے بعد ان سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر جانچ کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ پوچھ تاچھ میں آئی اے ایس افسروں اور وزراء کے نام سامنے آئیں گے، تو ان سے بھی پوچھ تاچھ کی جائے گی۔ تیواری کا کہنا ہے کہ جن جن کمپنیوں کو اب تک ٹھیکے ملے ہیں، فی الحال وہ سبھی شک کے دائرے میں ہیں۔ انھیں کس افسر یا وزیر کی مدد سے ٹنڈر ملے، اس کے ثبوت جمع کیے جا رہے ہیں۔

ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر ٹنڈر میں گڑبڑی ہو رہی تھی، تو اسے روکنے کی ذمہ داری متعلقہ محکمہ کے چیف سکریٹری اور وزراء کی بھی تھی۔ اس لیے ان کا کردار شبہات کے گھیرے میں ہے۔ ریاستی کانگریس کی ترجمان سنگیتا شرما کہتی ہیں کہ اتنا بڑا گھوٹالہ ہو اور چار سال سے زیادہ وقت تک وزیر اعلیٰ یا محکمہ کے وزیروں سے چھپا رہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

اکونومک انوسٹی گیشن بیورو ماکھن لال جرنلزم یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کی جانچ بھی کر رہا ہے۔ یونیورسٹی کے جنرل کونسل کے چیئرمین وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں تقریباً 10 سال پہلے آر ایس ایس سے رشتہ رکھنے والے بی کے کٹھیالا کو وائس چانسلر بنایا گیا تھا۔ ان پر منمانے ڈھنگ سے پیسے خرچ کرنے کے الزامات ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریہ والے تقریباً 20 لوگوں کی غلط ڈھنگ سے تقرریاں کرنے سے متعلق کاغذات بھی بیورو کو ملے ہیں۔

بی جے پی حکومت میں ریاستی وزیر رہے وشواس سارنگ کی بہن آرتی سارنگ کے لائبریرین کی شکل میں کیے گئے کام کو ٹیچنگ تجربہ مان کر انھیں سینئر فیکلٹی بنا دینے سے متعلق کاغذات بھی بیورو کو ملے ہیں۔ ای او ڈبلیو نے سابق وائس چانسلر کٹھیالا اور آرتی سارنگ سمیت 20 ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ بیورو ڈائریکٹر جنرل تیواری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے کئی اطلاعات جمع کی جا رہی ہیں جس کی بنیاد پر جانچ کو آگے بڑھایا جائے گا۔

ایسے میں ریاست کی زیادہ تر سیٹوں پر امیدوار ڈھونڈھنے میں بی جے پی کو دقت ہو رہی ہے جو پارٹی ریاست میں 15 سال اقتدار میں رہی ہو، اس کے یہاں اس طرح کے ٹوٹے کا مطلب ہے کہ اسے خود بھی آنے والے دن اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔ اسی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے پارٹی نے بھوپال سے مالیگاؤں دھماکہ کی ملزم سادھوی پرگیا کو ٹکٹ دے کر ریاست میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش شروع کر دی ہے۔

دراصل یہاں سے کانگریس امیدوار سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ اور ان کی امیدواری کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ یہاں کے لیے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے کئی ناموں پر غور کیا، جن میں سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ بھی تھے۔ لیکن پارٹی ذرائع کے مطابق انھوں نے خود ہی انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا۔ ریاست میں 29 اپریل کو پہلے مرحلہ کی ووٹنگ ہوگی جب کہ بھوپال سیٹ کے لیے 12 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔