مدھیہ پردیش: بازار سے خریدنے کے لئے پیسے نہیں، آدیواسیوں نے مہوہ کے پتے کا ماسک بنایا

پرہلاد گوڑ کا کہنا ہے کہ ہر کوئی بتا رہا ہے کہ یہ وائرس ایک دوسرے کے چھونے، منھ، آنکھوں اور ناک کے ذریعے پہنچتا ہے، لہذا ہم ایک دوسرے سے دوری بنا کر چل رہے ہیں، ساتھ ہی پتوں سے بنے ماسک لگا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بھوپال: کورونا وائرس کی وبا شہروں سے ہوتی ہوئی اب گاؤں کی طرف بھی رخ کر رہی ہے اور آدیواسی علاقہ میں بھی اس کی دہشت پائی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش کا بندیل کھنڈ بھی ایسا ہی علاقہ ہے جہاں کورونا سے لوگ خوف زدہ ہیں لیکن یہاں غربت کے سبب لوگ ماسک خریدنے سے قاصر ہیں، لہذا ان آدیواسیوں نے مہوہ کے پتوں سے ہی ماسک بنا لیا۔ یہ آدیواسی خود تو اس ماسک کا استعمال کر ہی رہے ہیں اسے گاؤں کے دوسرے لوگوں میں بھی تقسیم کر رہے ہیں۔

دراصل کورونا وائرس کے انفیکشن کی روک تھام کے لئے ڈاکٹر صلاح دے رہے ہیں کہ وقفہ وقفہ سے ہاتھ دھوتے رہیں، دوسروں سے رابطہ میں نہ آئیں اور ماسک کا استعمال کریں۔ ڈاکٹروں کی صلاح پر باحیثیت افراد تو ماسک خرید رہے ہیں لیکن بندیل کھنڈ کا ایک بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کا بھی بحران ہے۔ ایسے لوگوں نے مہوہ کے پتوں سے ماسک بنانا شروع کر دیئے ہیں۔ طبی طور پر یہ ماسک مؤثر ہیں یا نہیں یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن جتنا ہو پا رہا ہے آدیواسی اپنی حفاظت کے راستے تلاش کر رہے ہیں اور سماجی دوری بھی اختیار کر رہے ہیں۔


بندیل کھنڈ کے ضلع پنا میں قبائلیوں کی ایسی متعدد تصاویر منظر عام پر آ رہی ہیں جن میں وہ مہوے کے پتوں سے ماسک بنا رہے ہیں انہیں تقسیم کر کے لوگوں سے چہرے پر لگانے کے لئے بھی کہہ رہے ہیں۔ جردھوبا گرام پنچایت کے گاؤں کوٹا گنجا پور میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مہوہ کے پتے سے بنے ماسک پہنے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ کسان ڈبو گوڑ کہتے ہیں، ’’بیماری کے پیش نظر ہر کوئی ماسک لگانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں لہذا ہم نے مہوہ کے پتے سے ماسک بنائے ہیں اور اسی کو باندھ رہے ہیں۔‘‘

پرہلاد گوڑ کا کہنا ہے کہ ’’ہر کوئی بتا رہا ہے کہ یہ وائرس ایک دوسرے کو چھونے سے منہ، آنکھوں اور ناک کے ذریعے پہنچتا ہے، لہذا ہم ایک دوسرے سے دوری بنا کر تو چل ہی رہے ہیں، ساتھ میں پتوں سے بنے ماسک بھی لگا رہے ہیں۔ بازار سے ماسک خریدنے کے لئے پیسہ تو ہے نہیں۔‘‘


سماجی کارکن یوسف بیگ کا کہنا ہے، ’’بندیل کھنڈ اور قبائلی علاقوں میں کہا جاتا ہے کہ مہوہ کا پتا سانس کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے، کوئی بھی وائرس اس پتے سے ہو کر جسم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے یہاں کے لوگ مہوہ کے پتے سے بنے ماسک کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

بندیل کھنڈ کے ایک صحافی ندیم اللہ خان نے کہا، ’’بندیل کھنڈ خطہ اپنی غربت کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو آسانی سے کپڑے اور کھانا تک میسر نہیں ہو پاتا پھر بھی یہاں کے لوگ بیدار ہیں۔ یہاں کے قبائلی معاشی بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے بازار سے ماسک نہیں خرید پا رہے لیکن جتنا ہو سکتا ہے اپنا دفاع کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔