مدارس اسلامیہ جدید کاری کی طرف گامزن

Getty Images
Getty Images
user

آئی اے این ایس

اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں موجود قدیم ترین مدارس اسلامیہ میں سے ایک مدرستہ الاصلاح کے سابق طالب علم ابو اسامہ کا خیال تھا کہ مدرسہ سے گریجوایشن تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اس جدید دنیا میں مقابلہ نہیں کر پائیں گے لیکن بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کا یہ خیال غلط تھا۔

دہلی اسکول آف سوشل ورک سے ماسٹرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر آباد کی مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی کے شعبہ سماجی امور میں بطور معاون پروفیسر تعینات اسامہ نے بتایا، ’’ میں نے محسوس کیا کہ وہاں مدرسہ کے نصاب اور پروگرام سے اسلامی قدروں اور اخلاقیات کے علاوہ بھی میں نے کافی کچھ سیکھا۔‘‘

مدارس اسلامیہ بالخصوص اعظم گڑھ کے مدارس اکثرتعصب کا شکار رہے ہیں اور غلط الزامات کی وجہ سے سرخیوں میں بھی رہے ہیں۔ مشرقی یو پی کا ضلع اعظم گڑھ کبھی ہندو مسلم ہم آہنگی کے لئے جانا جاتا تھا اور یہاں کی سرزمیں نے کئی عظیم علماء کو بھی پیدا کیا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں میڈیا نے اسے غلط طریقہ سے ’آتنک گڑھ‘ کے طور پر پیش کیا ہے کیوں کہ یہاں سے کچھ مسلم شدت پسند گرفتار کئے گئے ۔

اتر پردیش میں تقریباً 19000 مدارس ہیں جن کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی صوبہ کی بی جے پی حکومت نے یوم آزادی کے موقع پر مدارس میں گائے جانے والے قومی ترانے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اب اتر پردیش کے متعدد مدارس ایسے ہیں جو پرانے خیالات کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک نئی مثبت شبیہ تیار کر رہے ہیں ۔ وقت کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے انہوں نے اپنے نصاب کو جدید اور ترقی پسند بنایا ہے نیز یہاں کے طالب علم کمپیوٹر اور دیگر مارڈرن ٹیکنیکل ڈیواسیز کو استعمال کر رہے ہیں۔

ان مدارس میں اب مذہبی تعلیم قرآن ، عربی زبان کے ساتھ انگریزی، ہندی، سائنس، ریاضی ، سیاسیات، معاشیات، کمپیوٹر سائنس وغیر موضوعات کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ کچھ نے پالی ٹیکنیک اور آئی ٹی آئی کورسز بھی شروع کئے ہیں ۔

اعظم گڑھ اور اس کےہم سایہ اضلاع میں تقریباً 50 بڑے مدارس ہیں جہاں تقریباً 50 ہزار طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ان مدارس میں اتر پردیش ، بہار اور جھارکھنڈ سے لے کر مغربی بنگال، آسام، جموں و کشمیر، ہریانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور نیپال تک کے طالب علم داخل ہے۔

طلباء کے بیچ پیغامات کے تبادلہ کے لئے واٹس ایپ مقبول ذریعہ ہے اور زیادہ تر کے پاس ای میل اور فیس بک اکاؤنٹ بھی ہے۔

مدرستہ الاصلاح جس کا قیام 1908 میں ہوا تھا اس علاقہ کے قدیم ترین مدرسوں میں سے ایک ہے اور یہاں تقریباً 1500 طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس مدرسہ میں داخل ہوتے ہی جس پر سب سے پہلے نگاہیں جاتی ہیں وہ ہے اس کی پالی ٹیکنیک عمارت۔

اصلاح سے تقریباً 50 کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک اور مدرسہ ہے جامعۃ الفلاح جس کا قیام 1960 میں ہوا تھا اور تقریباً 4300 طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں نصف لڑکیاں ہیں۔

جامعۃ الفلاح کے ڈائریکٹر مولانا طاہر مدنی نے کہا کہ اسلامی مدرسوں کے لئے جدید موضوعات کی شروعات کرنی ضروری ہے۔

مدنی کے مطابق،’’ جامعۃ الفلاح کا قیام اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہم اسلامیہ اور عصری دونوں طرح کی تعلیمات کو نصاب میں شامل کریں گے اور ہم ایسا کر بھی رہے ہیں۔‘‘

مسلمانوں کی صورت حال پر سچر کمیٹی کی پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق مسلم معاشرہ سے وابستہ محض 4 فیصد بچے ہی مدارس میں داخلہ لیتے ہیں۔

معاشرہ کے کچھ بنیاد پرستوں نے دلیل دی ہے کہ ان 4 فیصد بچوں کو اسلامی تعلیمات کا ماہر ہونا چاہئے اور انہیں عصری مضامین کو سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن مدرسہ اصلاح میں انگریزی کے استاد محمد عاصم کا خیال ہے کہ عصری مضامین کو سیکھنا اسلام کو سمجھنے اور اس کی تبلیغ کے لئے بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاضی کا علم وراثت کے اسلامی قوامین اور تجارت میں مددگار ثابت ہوتا ہے جبکہ سائنس کا علم قرآن کی عایات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو ) کے تحقیق کے طالب علم محمد سعود اعظمی کا کہنا ہے،’’ یہ ایک اچھی علامت ہے کہ مدارس اپنے طلباء میں عصری سمجھ کو فروغ دے رہے ہیں لیکن انہیں اپنے پڑھانے کا طریقہ کار بہتر کرنا ہوگا اور انہیں ماحولیات اور ماڈرن اکنامکس جیسے موضوعات کو بھی نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔