لو جہاد، لینڈ جہاد اور معاشی بائیکاٹ! مہاراشٹر میں مسلم منافرت کا عروج، 4 ماہ میں ہندو تنظیموں نے کیں 50 ریلیاں

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب میرا روڈ میں ایک ریلی میں ’اسلامی جارحیت، لو جہاد اور لینڈ جہاد‘ کے خلاف تقریریں ہوئی تھیں، کچھ مقررین نے تو مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی اپیل ہندو طبقہ سے کی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;GettyImages</p></div>

تصویرGettyImages

user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں مسلم منافرت کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس درمیان ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے ہندو تنظیموں کی مسلم منافرت کی قلعی کھول کر سامنے رکھ دی ہے۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مہاراشٹر میں گزشتہ سال نومبر سے اب تک تقریباً 4 ماہ میں کم از کم 50 ’ہندو جن آکروش مورچہ‘ ریلیاں منعقد کی گئی ہیں۔ ریاست کی تقریباً سبھی 36 اضلاع میں ہوئی ان ریلیوں میں سے ہر ایک میں طے پیٹرن پر عمل کیا گیا ہے۔ ریلیوں میں لوگ ہاتھوں میں بھگوا پرچم لیے اور مہاراشٹر کی ٹوپیاں پہنے لوگوں کا گروپ شہر کے بیچوں بیچ ایک مختصر مارچ نکالتے ہیں اور اس کے بعد ایک چھوٹی ریلی کرتے ہیں۔ ریلی میں بنے عارضی اسٹیج پر مقرر اقلیتوں (مسلمانوں) پر زبانی حملہ کرتے ہیں۔ لو جہاد، لینڈ جہاد، جبراً مذہب تبدیلی اور مسلم طبقہ کے معاشی بائیکاٹ کے ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ یعنی مہاراشٹر میں مسلم منافرت اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے خود کو ایسی ریلیوں سے کنارہ کر لیا ہے کہ ریلیاں ہندوتوا اور آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کے ذریعہ تیار ادارہ ’سکل ہندو سماج‘ کے ذریعہ کی جا رہی ہیں۔ لیکن ان میں سے تقریباً سبھی تقاریب میں مقامی بی جے پی رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ کی موجودگی رہی ہے۔ حالانکہ تقریریں بڑے پیمانے پر رائٹ وِنگ سے جڑے کٹرپسندوں کے ذریعہ کی جاتی ہیں۔ ان میں معطل بی جے پی لیڈر اور تلنگانہ رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ، کالی چرن مہاراج اور کاجل ہندوستانی شامل ہیں۔ ٹی راجہ سنگھ اور کالی چرن مہاراج تو قابل اعتراض بیان بازی کو لے کر قانونی معاملوں کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔


واضح رہے کہ ٹی راجہ سنگھ کو اسلام اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے نازیبا تبصرہ کے لیے گزشتہ سال اگست میں بی جے پی نے پارٹی سے معطل کر دیا تھا۔ وہ مہاراشٹر میں مسلم مخالفت والی ریلیوں کا ایک مشہور چہرہ ہیں۔ کالی چرن مہاراج عرف ابھجیت دھننجے سارنگ مہاراشٹر واقع اکولا کے باشندہ ہیں۔ ملک کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے خواہاں اس شخص کو دسمبر 2021 میں ایک دھرم سنسد میں ان کے اشتعال انگیز بیان کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہاں انھوں نے مبینہ طور پر ناتھورام گوڈسے کی تعریف کی تھی۔ ایک شعلہ بیان لیڈر کاجل ہندوستانی عرف کاجل شنگلا بھی ہیں جو گجرات کے باشندہ ہیں اور ہندوتوا کارکن کی شکل میں جانے جاتے ہیں۔ ہندو جن آکروش مورچہ ریلیوں کے علاوہ پورے مہاراشٹر میں اسی طرح کی کئی ریلیاں ہوئی ہیں۔ ان میں ہندو جن جاگرتی سمیتی، گوا واقع ایک تنظیم کے ذریعہ منعقد ’ہندو راشٹر جگرتی سبھا‘ بھی شامل ہے۔ اس کا مقصد ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنا ہے۔ ان ریلیوں میں بھی اشتعال انگیز تقریریں ہوتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں تقاریب کے منتظم الگ الگ ہیں، لیکن بلائے جانے والے مقرر ایک ہی ہیں۔ ٹی راجہ سنگھ، کالی چرن مہاراج اور کاجل ہندوستانی سمیت کئی مقرر دونوں تقاریب میں جاتے ہیں۔

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں (12 مارچ) جب ممبئی کے میرا روڈ میں ایسی ہی ایک ریلی میں ’اسلامی جارحیت، لو جہاد اور لینڈ جہاد‘ کے خلاف تقریریں ہوئی تھیں۔ کچھ مقررین نے تو مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی اپیل ہندو طبقہ سے کی تھی۔ کاجل ہندوستانی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’اسلامی جارحیت کے تین اہم پہلو ہیں۔ پہلا ہے لو جہاد، دوسرا آتا لینڈ جہاد اور آخر میں مذہب تبدیلی کا مسئلہ آتا ہے... ان کے لیے... رام کی قیادت والا حل ہے۔ جہاں آپ کو سیاسی لیڈر، سپریم کورٹ یا یہاں تک کہ میڈیا بھی نہیں روک پائے گا۔ وہ حل ان کا معاشی بائیکاٹ ہے۔‘‘ تقریر سے پہلے 2 کلومیٹر کے مارچ کو میرا بھایندر سے آزاد رکن اسمبلی گیتا جین نے جھنڈی دکھا کر روانہ کیا تھا۔ وہ مہاراشٹر حکومت کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس تقریب میں بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے کے ساتھ مقامی بی جے پی لیڈر اور وی ایچ پی و بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے اراکین نے بھی شرکت کی تھی۔


ان ریلیوں اور اقلیتی طبقہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے بی جے پی بھلے ہی خود کو الگ ٹھہرا رہی ہے، لیکن ان میں پارٹی لیڈروں اور وزراء کی شراکت داری کے بارے میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کا بیان چشم کشا ہے۔ انھوں نے جنوری میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’کچھ ریلیوں میں ہمارے پارٹی کارکنان یا لیڈران موجود رہے ہیں، کیونکہ وہ بھی ہندو ہیں۔ اگر ہندوؤں کے مسائل کو لے کر ریلی کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو فطری ہے کہ یہ لیڈران حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بی جے پی کا ایجنڈا نہیں ہے۔‘‘ 12 مارچ کو میرا روڈ کی تقریب میں موجود بی جے پی لیڈر اور کنکولی سے رکن اسمبلی نتیش رانے کا ایک بیان ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان کے ذریعہ سارا پیسہ ہندو طبقہ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اس پیسے کا استعمال طبقہ کی خوشحالی کے لیے کیا جاتا ہے تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن وہ ہندوؤں کے خلاف دہشت گردی، لو جہاد اور کئی دیگر چیزوں کے نام پر پیسے کا استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمیں ان کی معاشی خوشحالی کو روکنے کی اپیل کرنی پڑی۔‘‘

کئی مسلم مخالف ریلیوں میں موجود بی جے پی رکن اسمبلی پروین داریکر بھی ہندوتوا لیڈروں کی تقریر کو درست ٹھہراتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان کا مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی تعداد میں ہو رہا ہے۔ ایک خاص طبقہ کے لوگ زمین مافیا ہیں جو زمین قبضہ کر مذہبی مقام بنا لیتے ہیں۔ ہندو سماج اس سب کے خلاف ایک ساتھ آیا ہے۔‘‘ توجہ طلب بات یہ ہے کہ مہاراشٹر پولیس کے جوانوں کو ایسی بیشتر ریلیوں میں تقریر کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا، لیکن ابھی تک کسی بھی مقرر کے خلاف کوئی معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ ٹی راجہ سنگھ کو لاتور (فروری) اور احمد نگر (مارچ) میں نفرت پھیلانے والی تقریروں کے لیے مہاراشٹر پولیس کے ذریعہ دو بار بک کیا گیا ہے، لیکن وہ ریلیاں ’ہندو جن آکروش مورچہ‘ کے بینر تلے نہیں ہوئی تھیں۔ مہاراشٹر پولیس کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کی گائیڈلائنس کے مطابق ہم ان ریلیوں میں کہی جانے والی ہر بات کی ویڈیو ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔ پھر ہم انھیں اچھی طرح سے سنتے ہیں۔ مناسب اشخاص سے قانونی مشورہ لیتے ہیں اور پھر قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔