سوالوں کے گھیرے میں ’لو جہاد‘

آج نہ صرف کیرالہ بلکہ ملک بھر کے اقلیتی طبقے میں بے چینی کا ماحول ہے

فوٹو ٹوئٹر
فوٹو ٹوئٹر
user

عمران خان

نئی دہلی: کیرالہ میں اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہوئی لڑکی ہادیہ کی ایک مسلمان لڑکے شفین جہاں کے ساتھ کی گئی شادی کو گزشتہ سال منسوخ کر دیا گیا تھا۔اس معاملے کے تار ملک شام اور دولت اسلامیہ تک سے جڑے ہونے کی بات کہی جا رہی ہے جس کے بعد اب سپریم کورٹ نےمعاملے کی جانچ این آئی اے سے کرانے کے لئے احکام جاری کئے ہیں۔ آج نہ صرف کیرالہ بلکہ ملک بھر کے اقلیتی طبقے میں بے چینی کا ماحول ہے۔ ہندوستان کا آئین کسی کو بھی اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کا حق دیتا ہے ساتھ ہی ایک بالغ لڑکے یا لڑکی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے لئے شریک حیات کا انتخاب کر ے۔ کسی لڑکی یا لڑکے کے فیصلے کو لے کر کسی بھی طرح کی سیاست نہیں کی جانی چاہئے لیکن آج کل ماحول ایسا ہے کہ اگر کوئی بات دو فرقوں سے تعلق رکھتی ہے ہو تو اس پرہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے اور سیاسی لوگ فورا ً سیاسی روٹیاں سینکنا شروع کر دیتے ہیں ۔

کیرالہ کی اکھیلا اشوکن نے گریجویشن کے زمانے میں ہی اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنا نام ہادیہ رکھ لیاتھا۔ اس کی شفین نامی مسلم لڑکے سے محبت کی شادی نہیں تھی بلکہ ان دونوں کی ملاقات ایک میٹریمونیل ویب سائٹ (شادی کرانے والی ویب سائٹ ) پر ہوئی تھی۔ ایسے میں اس معاملے کو ’لو جہاد ‘کی نظر سے دیکھے جانے اور شفین کو دولت اسلامیہ کا رکن قرار دیے جانے پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی نے اس معاملے پر کہا ہے کہ ’’میں کیرالہ کیس کو لوجہاد کا معاملہ مانتا ہوں اور ایک ہندو لڑکی اور ایک مسلم لڑکے کی شادی کے اس معاملے میں این آئی اے کی جانچ میں مدد کروں گا‘‘۔ وہیں کانگریس کے رہنما شہزاد پونا والا نے سبرامنیم پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سبرامنیم سوامی کی خودکی بیٹی نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے ، کیا وہ بھی ’لو جہاد ‘کا معاملہ تھا؟۔ساتھ ہی بی جے پی کے رہنماؤں مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کے تعلق سے کیا کہا جائے جنہوں نے شادیاں مسلم مذہب سے باہر کی ہیں ، کیا وہ شادیاں بھی ’لو جہاد ‘کے زمرے میں آتی ہیں ؟

واضح رہے کہ کیرالہ کے اس معاملہ میں ایک روز قبل سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تھی۔ سال 2016 میں ہادیہ اور شفین کی شادی کو ہائی کورٹ نے ’لو جہاد ‘قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد شفین نے اپنی شادی بچانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔چیف جسٹس جے ایس کیہر کی صدارت والی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی اور مبینہ’لو جہاد‘کے پہلوؤں اور شفین کے الزامات کی جانچ کا حکم این آئی اے کو دیا ہے ۔

سماعت کے دوران این آئی اے نے عدالت میں دعوی کیا کہ’لو جہاد‘ کے واقعات ہو رہے ہیں۔ این آئی اے نے کہا، ’’ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرنے اور مسلم نوجوانوں سے نکاح کرنے کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔‘‘

دسمبر میں عدالت میں پیش ہوئی ہادیہ نے کہا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے کافی پہلے اسلام مذہب قبول کر لیا تھا۔ وہیں ہادیہ کے والد اشوكن نے دعوی کیا کہ اس کا ’برین واش ‘گریجویشن کی تعلیم کے دوران ہی کر دیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران عرضی گزار کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ وہ ان معاملات کے حوالے سے عدالت میں حلف نامہ دے سکتے ہیں جن میں بعد میں این آئی اے نے ’یو ٹرن ‘لیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’یہ درست ہوگا کہ عدالت اس لڑکی کو طلب کر خود اس سے بات کرے‘۔ اس پر عدالت نے کہا ہے کہ جانچ کے بعد فیصلہ دینے سے پہلے لڑکی سے بات کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔