بنگال میں دوسرے مرحلے میں تین لوک سبھا حلقوں میں پولنگ، تیاریاں مکمل

شمالی بنگال کی 3 لوک سبھا سیٹوں رائے گنج، دارجلنگ اور جلپائی گوڑی میں دوسرے مرحلے کیلئے کل ووٹنگ ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حکمراں جماعت ترنمو ل کانگریس کے ذریعہ انتخابی مہم میں بنگلہ دیشی اداکار فردوس احمد کو شامل کرنے پر پیدا ہوئے تنازع کے دوران شمالی بنگال کے تین لوک سبھا سیٹوں رائے گنج، دارجلنگ اور جلپائی گوڑی میں دوسرے مرحلے کیلئے کل پولنگ ہوگی۔

جلپائی گوڑی لوک سبھا حلقہ جنگلات اور چائے باغات کیلئے کیلئے مشہور ہے۔پولنگ کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔پہاڑی اور زمینی سطح دونوں پر مشتمل علاقے میں بڑے تعداد میں مرکزی فورسیس کو تعینات کیا گیا ہے۔پہلے مرحلے میں کوچ بہار اور علی پوردوار میں پولنگ کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔

کل 49,32,346 ووٹرس 5,390 پولنگ بوتھوں پر جاکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔تینوں لوک سبھا حلقے میں کل 42 امیدوار ہیں۔ چار بڑی پارٹیوں سی پی آئی ایم، کانگریس، ترنمول کانگریس اور بی جے پی نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
رائے گنج میں کئی اسٹارپرچارکوں نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ یہاں سے موجودہ ممبرپارلیمنٹ محمد سلیم کے علاوہ کانگریس کی دیپا داس منشی جو پہلے اس حلقے کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی جنرل سیکریٹری دیباشری چودپھری اور ترنمول کانگریس کے امیدوار کنہیالال اگروا ل میدان میں ہیں۔دیپاداس منشی نے گزشتہ انتخاب میں محض 1600ووٹوں سے محمد سلیم سے ہار گئی تھیں۔اس سیٹ کو لے کر کانگریس اور سی پی ایم کے درمیان زبردست کھینچاتانی تھی چناں چہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد نہیں ہوسکا۔

محمد سلیم جو اپنے ایم پی لینڈفنڈ کو خرچ کرنے کے معاملے میں سرفہرست ہیں کہتے ہیں کہ ان کا فوکس ترقیاتی کاموں پر ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران بی جے پی اور ترنمول کانگریس دونوں نے تنازعات کھڑا کرکے اس علاقے کے ماحول کو نقصان پہنچانے کی متعدد مرتبہ کوشش کی۔مگر میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ اس علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی بھر پور شش کی ہے اور اس میں کامیابی بھی ملی۔

دیپاداس منشی ملک میں سیکولرازم کی بحالی اور کانگریس حکومت کے قیام کے ایشوز پر انتخاب لڑرہی ہیں۔یہ حلقہ ان کے شوہر پریہ رنجن داس منشی کا بھی رہاہے۔اس کے علاوہ وہ الزام عاید کرتی ہیں کہ ایمس اسپتال کی برانچ قائم نہیں ہونے میں ترنمول کانگریس کا ہاتھ ہے۔اگر ہم کامیاب ہوگئے تو یہاں ایمس کی شاخ قائم کیا جائے گا۔جب کہ بی جے پی امیدوار وزیرا عظم نریندر مودی کی قیادت میں اس علاقے میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کرنے کا وعدہ کررہی ہیں۔تاہم انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے ترقیاتی ایشوز سے کہیں زیادہ این آر سی کو موضوع بنانے کی کوشش کی ہے۔

ترنمول کانگریس نے بنگلہ دیشی اداکار فردوس احمد کو مہم میں چلاکر اس علاقے میں ایک نئی بحث شروع کردی ہے۔مرکزی حکومت نے فردوس احمد کے ویزہ کو منسوح کردیا ہے۔بی جے پی نے ترنمول کانگریس کے امیدوار کنہیا لال اگروال کی امیدوار کو ختم کرنے اور این آئی اے سے جانچ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جانچ ہونی چاہیے کہیں غیر ملکی طاقتیں ہندوستانی جمہوریت میں اثرانداز ہورہی ہے۔

دارجلنگ ٹی گارڈن اورسیاحت کیلئے مشہور ہے۔بی جے ہی اس مرتبہ راجو سنگھ بست،ترنمول کانگریس کے امرسنگھ رائے،سی پی ایم نے سمن پاٹھک اور کانگریس نے سنکرمالاکار کوا میدوار بنایا ہے۔اس کے علاوہ یہاں پانچ آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔2009اور 2014میں بی جے پی نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔موجودہ ممبرپارلیمنٹ ایس ایس اہلوالیہ کو پارٹی نے بردوان درگاپور سے امیدوار بنایا ہے۔

1980سے ہی دارجلنگ میں علاحدہ ریاست کا ایشو ہمیشہ غالب رہتا تھا مگر پہلی مرتبہ 2019کے انتخاب میں علاحدہ ریاست کا ایشو ختم ہوچکا ہے۔علاحد ہ ریاست گورکھا لینڈ کیلئے جدو جہد کرنے والی گورکھا جن مکتی مورچہ تقسیم کا شکار ہے۔ایک گروپ بی جے پی کی حمایت کررہا ہے تو دوسرا گروپ ترنمول کانگریس کے ساتھ ہے۔

جلپائی گوڑی کے ممبر پارلیمنٹ بیجے چندرابرمن ایک بار پھر ترنمول کانگریس کے امیدوار ہیں۔ڈاکٹر جیانتا کمار ارئے بی جے پی کے امیدوار ہیں۔جب کہ کانگریس نے چائے باغات یونین لیڈر منی کماردرنال کو امیدوار بنایا ہے جب کہ سی پی آئی ایم نے بھگیرت چندرا رائے کو امیدوار بنایا ہے۔پانچ دیگر رجسٹرڈ پارٹی اور تین آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔

جلپائی گوڑی میں 40فیصد ووٹروں کا تعلق چائے باغات کے ورکروں سے ہے۔جب کہ دارجلنگ میں یہ شرح 50فیصد ہے۔جلپائی گوڑی (ایس سی)میں کل 1,868پولنگ بوتھ ہے۔دارجلنگ میں 1,899اور رائے گنج میں 1,623. پولنگ بوتھ ہیں۔پرامن پولنگ کرانے کیلئے الیکشن کمیشن نے ان تینوں حلقوں میں کل 194کمپنیاں تعینات کی ہیں۔مغربی بنگال میں سات مرحلے میں پولنگ ہورہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔