یوپی: پارٹی بدلنے والے امیدواروں کو ووٹروں نے خارج کیا

ان انتخابات میں یو پی میں ’نوٹا‘ نے بھی کافی اہم رول ادا کیا جہاں دو پارلیمانی حلقوں پر جیتنے والے امیدوار کا مارجن ’نوٹا‘ پر ڈالے گئے ووٹ سے بھی کم تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

لکھنؤ: 2019 کے عام انتخابات جہاں میں عوام نے بی جے پی کو واضح اکثریت سے کامیاب کیا تو وہیں انہوں نے ایک پارٹی بدل کر دوسرے پارٹی سے انتخابی میدان میں اترنے والے امیدوار کو سرے سے خارج کردیا۔ تو’ نوٹا‘ نے کئی امیدواروں کا کھیل بگاڑ دیا۔

معروف سیاست داں جو اس بار کے انتخابات میں پارٹی بدل کر دوسری پارٹی کے نشان پر انتخابی میدان میں تھے ان میں رام چرت نشاد (مرزا پور)، راج کشور سنگھ (بستی) رما کانت یادو( بھدوہی) اور بھال چند یادو(سنت کبیر نگر) شامل ہیں۔


اس الیکشن میں ایسے امیدواروں کی مجموعی تعداد 67 تھی ان میں سے کانگریس نے اکیلے 32 امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی اپنی ضمانت نہیں بچا سکا۔

پارٹی بدل کر انتخابی میدان میں اترنے والے لیڈروں میں بی جے پی کے امیدواروں کو سب سے زیادہ کامیابی ملی ہے جبکہ بی ایس پی کے ایک امیدوار کنور دانش علی جنہوں نے الیکشن سے قبل ہی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی وہ بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔ بی جے پی امیدوار جئے پرکاش راوت (ہردوئی)، اشوک راوت (مشرکھ)، کیسری دیو پٹیل (پھولپور) اور رمیش چندرا بند(بھدوہی) جو کہ بی ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے جیتنے میں کامیاب رہے۔


ان انتخابات میں یو پی میں ’نوٹا‘ نے بھی کافی اہم رول ادا کیا جہاں دو پارلیمانی حلقوں پر جیتنے والے امیدوار کا مارجن ’نوٹا‘ پر ڈالے گئے ووٹ سے بھی کم تھا۔ مچھلی شہر میں بی جے پی امیدوار بی پی سروج نے بی ایس پی امیدوار کو 181 ووٹوں سے شکست دی یہاں پر نوٹا پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 10830 تھی اسی طرح سے سراوستی میں بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمان ددن مشرا کو بی ایس پی کے رام شری رومانی نے 5320 ووٹوں سے شکست دی یہاں پر نوٹا پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 17108 تھی۔

ریاست میں مجموعی طور سے 725079 ووٹ نوٹا پر ڈالے گئے جو کہ 80 سیٹوں پر ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کا 0.84 فیصد ہے۔ نوٹا کا سب سے زیادہ استعمال رابرٹس گنج لوک سبھا سیٹ پر کیا گیا جہاں پر 21118 رائے دہندگان نے ’نوٹا ‘ کا بٹن دبا جو کہ اس حلقے میں ڈالے گئے کل ووٹوں کا 2.14 فیصد ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */