لوک سبھا انتخابات کا پہلا مرحلہ: مغربی یوپی میں ووٹنگ کا رجحان، بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی!

بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک کے کھسکنے اور اپوزیشن کے ووٹوں کے اتحاد نے مغربی اتر پردیش میں پہلے مرحلے میں بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>یو این آئی</p></div>

یو این آئی

user

آس محمد کیف

اسی لوک سبھا سیٹوں والی ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ کا رجحان بی جے پی کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد عام لوگوں سے جو بات چیت ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام اب بی جے پی سے مایوسی ہو چکی ہے۔ اتر پردیش کی 8 لوک سبھا سیٹوں پر 19 اپریل کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد ایک نئی صبح کے تابناک سورج کے طلوع ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک کے کھسکنے اور اپوزیشن کے ووٹوں کے اتحاد نے مغربی اتر پردیش میں پہلے مرحلے میں بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہی نہیں، ووٹنگ کا یہ رجحان اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ یوپی میں سب کچھ بی جے پی کی خواہش کے مطابق نہیں ہونے والا۔ یہ وہی ریاست ہے جہاں بی جے پی 80 میں سے 80 لوک سبھا سیٹیں جیتنے کا نعرہ دے رہی ہے۔ 2019 میں بی جے پی کو 63 لوک سبھا اور 2014 میں 73 لوک سبھا سیٹیں ملی تھیں لیکن اس بار بھگوا پارٹی کے لیے وہاں تک پہنچ پانا مشکل نظر آ رہا ہے۔

سہارنپور سے سیاست میں سرگرم نوجوان سندیپ رانا کا دعویٰ ہے کہ جمہوری سیاست میں کسی ایک پارٹی کا حد سے زیادہ پراعتماد ہونا مہلک ہے۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرتی ہے تو عوام اسے آنکھ بند کر کے قبول کر لیں گے، اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ جمہوریت میں سوال اٹھتے ہیں اور حکمران جماعت کو ان کا جواب دینا پڑتا ہے۔ اب سماج کے ہر طبقے میں بی جے پی کے تئیں کئی سوالات ہیں۔ مغربی اتر پردیش میں لوگوں کو اپنے سوالوں کے جواب نہ ملتے دیکھ کر انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔ سندیپ رانا سہارنپور کی نوجوان سیاست سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سہارنپور میں کانگریس اتحاد کے امیدوار عمران مسعود کو اکثریتی برادری کے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ اس میں راجپوت، سینی اور دلت ووٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے کام کاج سے ناخوش نوجوانوں نے بھی کانگریس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ان 8 سیٹوں میں سہارنپور کا ووٹنگ فیصد سب سے زیادہ رہا ہے۔


خیال رہے کہ مغربی یوپی کے سہارنپور، مظفر نگر، کیرانہ، بجنور، نگینہ، مرادآباد، رام پور اور پیلی بھیت میں 19 اپریل کو عام انتخابات کے تحت ووٹنگ کی گئی۔ جس میں بجنور میں 58.21 فیصد، کیرانہ میں 61.17، مرادآباد میں 59.32، رام پور میں 52.42، نگینہ میں 59.24، مظفر نگر میں 60.02، پیلی بھیت میں 60.23 اور سہارپور میں 66.65 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہ ووٹنگ فیصد 2019 کے مقابلے کم ہے، ان تمام لوک سبھا سیٹوں پر 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کم ووٹ ڈالے گئے۔ 2019 کی طرح مظفر نگر میں 68.42 فیصد اور بجنور میں 66.22 فیصد ووٹ پڑے، جو کہ 2024 کے مقابلے میں 8 فیصد کم ہے، کم و بیش تمام لوک سبھا سیٹوں پر یہی صورتحال ہے۔

انتخابات کے اس پہلے مرحلے میں اپوزیشن کے ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی، جبکہ راجپوت ووٹر اپنی ناراضگی کی وجہ سے بوتھ تک نہیں گئے۔ راجپوت اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ کا تناسب بہت کم رہا، حالانکہ سہارنپور میں پرجوش ہو کر ووٹنگ کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کانگریس نے سہارنپور کے ضلع صدر کو تبدیل کرتے ہوئے راجپوت برادری کو انتخابات سے عین قبل نمائندگی دی تھی۔ اس کا اثر کیرانہ اور مظفر نگر میں بھی دیکھا گیا، کیرانہ میں راجپوت برادری بی ایس پی کے شری پال رانا کو پسند کیا اور مظفر نگر میں اس نے ایس پی کے ہریندر ملک کو ووٹ دیا۔ ایس پی کے بجنور کے امیدوار دیپک سینی نے پسماندہ طبقے کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح بی ایس پی کے مظفر نگر کے امیدوار دارا سنگھ پرجاپتی کو ان کی برادری نے ووٹ دیا۔ چندر شیکھر آزاد نے نگینہ میں مضبوطی سے الیکشن لڑا، حالانکہ وہاں اپوزیشن کا ووٹ اے ایس پی، ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان تقسیم ہوا لیکن چندر شیکھر کو پھر بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ دیا۔


مظفر نگر میں حیرت انگیز طور پر کئی طبقے بی جے پی کے سنجیو بالیان کے خلاف کھڑے نظر آئے۔ ان میں خاص طور پر راجپوت، برہمن اور انتہائی پسماندہ طبقات شامل تھے۔ انڈیا الائنس کے امیدوار ہریندر ملک یہاں اپنی جیت یقینی سمجھ رہے ہیں۔ ان کے ایم ایل اے بیٹے پنکج ملک کا کہنا ہے، ’’یہ الیکشن پوری طرح سے بی جے پی کی غلط حکمرانی کے خلاف لڑا گیا ہے۔ اس بار مودی جی کی لہر نہیں ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری اور خواتین میں مہنگائی مسئلہ ہیں۔ اس بار کا الیکشن سوال پوچھنے کا الیکشن رہا ہے۔ اس میں کسی قسم کا پولرائزیشن نہیں دیکھا گیا ہے۔ مغربی اتر پردیش میں پہلے انتخابات کا یہ انداز ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی جا رہی ہے۔ بی جے پی حکومت کو بدلنے کے لیے ہر طبقے نے حصہ لیا ہے۔ سیاست میں، جب تمام طبقات، کم و بیش تعداد میں، اکٹھے ہو کر کسی ایک پارٹی کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دیتے ہیں، یہ تبدیلی کی علامت ہوتی ہے۔ مغربی اتر پردیش کے پہلے مرحلے میں اسی طرح کے اشارے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

मुजफ्फरनगर में भाजपा के संजीव बालियान के विरुद्ध आश्चर्यजनक रूप से कई वर्ग खड़े हुए दिखाई दिए। इनमे खासकर राजपूत, ब्राह्मण और अति पिछड़ा वर्ग शामिल था। इंडिया गठबंधन के उम्मीदवार हरेद्र मलिक यहां अपनी जीत निश्चित मान रहे हैं। उनके विधायक पुत्र पंकज मलिक कहते हैं कि यह चुनाव पूरी तरह से भाजपा के कुशासन के विरुद्ध लड़ा गया चुनाव है। इस बार मोदी जी की कोई लहर नही है। युवाओं में बेरोजगारी और महिलाओं में महंगाई मुद्दा है। इसबार का चुनाव सवाल पूछने का चुनाव रहा है। इसमें किसी तरह का कोई धुर्वीकरण देखने को नही मिला है। पश्चिमी उत्तर प्रदेश का पहले चुनाव का यह पैटर्न बताता है कि भाजपा जा रही है। हर वर्ग ने भाजपा सरकार बदलने के लिए सहभगिता दिखाई है। राजनीति में जब सभी वर्ग कम या ज्यादा संख्या में किसी एक दल के प्रति पक्ष या विपक्ष में संगठित होकर मतदान करते है तो यह प्रतिवर्तन का संकेत होता है। पश्चिमी उत्तर प्रदेश के पहले चरण में इसी तरह के संकेत मिल रहे हैं।

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔