ڈل جھیل کے کنارے موجود پھول مکھانے فروخت کر اپنی مالی حالت مستحکم کر رہیں مقامی خواتین
فاطمہ بی کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے روایتی روزگار کو فروغ دے تاکہ خواتین بھی خود کفیل بن سکیں۔ حکومت ہمیں بازار فراہم کرے یا مدد دے تو اور بھی خواتین اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔‘‘

ڈل جھیل، تصویر بشکریہ@nagarkoti
سری نگر: شہرہ آفاق جھیل ’ڈل‘ نہ صرف سیاحت کا مرکز ہے بلکہ یہاں کے پانی میں چھپی قدرتی نعمتیں مقامی لوگوں کے لیے ذریعۂ معاش بھی بنی ہوئی ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون فاطمہ بی ہیں، جو ان دنوں ڈل جھیل کے کنارے پھول مکھانے(کنول کے بیج) فروخت کر کے اپنی مالی حالت مستحکم کر رہی ہیں۔
فاطمہ نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’الحمد للہ اس بار جھیل میں کنول کے بیج کی فصل کافی اچھی ہوئی ہے۔ پانی کی سطح بھی موزوں رہی، اس لیے ہم نے بڑی مقدار میں بیج نکال لیے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت وہ چار گٹھلی سو روپے میں فروخت کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کام محنت طلب ہے۔ صبح سویرے جھیل میں جاکر گٹھلیاں نکالنی پڑتی ہیں، پھر انہیں صاف کر کے کنارے لا کر بیچنا ہوتا ہے۔
جھیل کے کنارے سے گزرنے والے سیاح فاطمہ سے کنول کے بیج نہ صرف خریدتے ہیں بلکہ ان سے کشمیری دیہی زندگی کی جھلک بھی پاتے ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ: ’’کئی لوگ پھول مکھانے پہلی بار دیکھ کر بہت خوشی سے خریدتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے دوا سمجھ کر کھاتے ہیں، کچھ اسے سوغات کے طور پر لے جاتے ہیں۔‘‘
کنول کے بیج کشمیری عوام کے لیے نہ صرف غذائی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ یہ ثقافتی ورثہ بھی ہیں۔ ماضی میں گٹھلی کی خرید و فروخت محض چند علاقوں تک محدود تھی، لیکن اب ڈل جھیل کے ارد گرد شہری، سیاح بھی اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ فاطمہ بی کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے روایتی روزگار کو فروغ دے تاکہ خواتین بھی خود کفیل بن سکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری محنت کو تسلیم کیا جائے اور اگر حکومت ہمیں بازار فراہم کرے یا مدد دے تو اور زیادہ خواتین بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔