یو پی میں نظم و نسق کی حالت خراب، قتل، ڈکیتی اور اغوا جیسے جرائم کا سیلاب

اس ہفتہ لکھنؤ میں خود پولس نے ڈکیتی ڈالی، مظفرنگر میں فساد کے گواہ کو قتل کیا گیا، بلند شہر میں دن دہاڑے اغوا کی واردات انجام دی گئی اور دلت دولہے کے گھوڑی چڑھنے پر پتھراؤ کیا گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

لکھنؤ: اتر پردیش میں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی ہے تب سے نظم و نسق کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اتر پردیش میں رواں ہفتہ تو کچھ زیادہ ہی خراب گزرا، 9 مارچ کو لکھنؤ پولس کے دو انسپکٹروں نے ایک تاجر سے ایک کروڑ 84 لاکھ روپے لوٹ لئے۔ یعنی عوام کے محافظ خود ہی ڈکیٹ بن گئے۔ اس کے بعد میرٹھ میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور محلہ مچھیران کی ایک بستی جل کر خاکستر ہو گئی۔ اس کے بعد مظرنگر ضلع کے کھتولی قصبہ میں مظفر نگر فساد کے ایک گواہ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اسی دن بلند شہر میں ایک نابالغ لڑکی کا سر عام اغوا کر لیا گیا۔ کوتوالی دیہات میں دلت دولہے کے گھوڑی چڑھنے پر پتھراؤ کر دیا گیا۔

مظفر نگر فساد: 2 مسلم بھائیوں کے قتل کا چشم دید گواہ بھی مارا گیا  

مظفر نگر فساد کے دوران دو بھائیوں نواب اور شاہد کے قتل کے چشم دید گواہ اشفاق کا قتل ہو جانے سے ایک بار پھر یو پی پولس کٹہرے میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اشفاق کا قتل 11 مارچ کو دو موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر کیا۔ دراصل اشفاق ایک دکان پر دودھ پہنچانے جا رہا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار دو لوگوں نے اس پر گولی داغ دیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں سے کچھ ہی میٹر کی دوری پر کھتولی پولس اسٹیشن ہے لیکن جرائم پیشے واقعہ انجام دے کر بہ آسانی وہاں سے فرار ہو گئے۔ واقعہ کے تعلق سے اشفاق کی بیوی مینا کا کہنا ہے کہ ’’مظفر نگر فساد معاملہ میں قتل کی گواہی دینے اور ملزمین کا نام لینے کے بعد ان کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’وہ لوگ ہمارے گھر آئے اور کہا کہ وہ اپنے حساب سے انصاف کریں گے۔‘‘ غمزدہ مینا نم آنکھوں سے کہتی ہیں کہ پہلے تو انھوں نے ہم سے ہمارے دو بھائی چھین لیے اور پھر شوہر کا بھی قتل کر دیا۔

مقتول اشفاق بنیادی طور پر گاؤں کھیڑی تگان کا رہنے والا تھا۔ 2013 میں ہونے والے فساد کے دوران اس گاؤں کے نزدیک متھیڑی کے جنگل میں اس کے دو سگے بھائیوں نواب اور شاہد کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اشفاق کا خاندان گاؤں چھوڑ کر کھتولی کے اسلام نگر علاقہ میں آ کر بس گیا۔

اپنے سگے بھائیوں کے قتل معاملہ کی اشفاق پیروی کر رہا تھا اور آنے والی 25 مارچ کو اس معاملہ میں اس کو گواہی دینی تھی۔ اشفاق کے خاندان کا کہنا ہے کہ تین مہینے پہلے اشفاق پر فیصلہ کے لئے دباؤ بنایا گیا تھا لیکن وہ مفاہمت پر راضی نہیں ہوئے۔

بلند شہر میں دن دہاڑے اغوا

بلند شہر میں 11 مارچ کو اپنے بھائی کے ساتھ بائیک پر شادی سے لوٹ رہی ایک نابالغ لڑکی کو کار سوار لوگوں نے اغوا کر لیا، اس کے بعد ملزم کے گھر پر بھیڑ نے حملہ کر دیا۔ لڑکے اور لڑکی کے الگ الگ طبقات سے ہونے کی وجہ سے یہاں کشیدگی برقرار ہے۔ اسی دن ضلع کے دیگر تھانہ کوتوالی دیہات میں دلت دولہے کی گھڑچڑھائی کے دوران ٹھاکوروں نے پتھراؤ کر دیا۔ اس واقعہ میں کئی بچوں سمیت ایک درجن باراتی زخمی ہو گئے، گاؤں کا ماحول کشیدہ بنا ہوا ہے۔ دلت لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مندر میں گھس کر اپنی جان بچائی۔

ایس ڈی ایم کا کہنا ہے کہ ٹھاکوروں کو ڈی جے میں بج رہے گانوں پر اعتراض تھا جس کے بعد انہوں نے ڈی جے بند کروا دیا۔ یہاں دلت طبقہ سے وابستہ لوگ مقدمہ درج کرانے کی بھی ہمت نہیں جٹا پائے۔

لکھنؤ میں پولس نے ہی ڈالی ڈکیتی!

ادھر لکھنؤ میں پولس نے ایک شرمندہ کرنے والی واردات کو انجام دیا۔ پولس نے ملزم انسپکٹروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک تاجر کو خوف زدہ کر کے اس سے ایک کروڑ 84 لاکھ روپے لوٹ لئے، دونوں انسپکٹروں کو اب جیل بھیج دیا گیا ہے۔

اتر پردش میں نظم نسق کی صورت حال کو لے کر لگاتار سوالات اٹھ رہے ہیں اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو ڈی جی پی کو ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کے لوگ ہی نظم و نسق کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

سماجوادی پارٹی کے ریاستی سکریٹری منیش جگن کے مطابق ’’اتر پردیش میں نظم و نسق کی صورت حال اپنے خراب ترین دور میں ہے، ہر روز ریاست بھر سے پولس کو شرمسار کرنے والی خبریں موصول ہو رہی ہیں، پولس تھانوں میں مقدمے نہیں لکھے جا رہے ہیں۔ پولس خود قانون اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے۔ بی جے پی کے رہنما بھی کئی مجرمانہ واقعات میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ پولس عوام میں اپنا اعتماد قائم کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔