’ادب کے لئے زبان کا زندہ رہنا ضروری‘

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اردو کی بنیادی تعلیم کو اسکولوں میں پھر سے شروع کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کا ادب تو کیا کوئی بھی ادب اس وقت تک زندہ رہے گا جب زبان کی تعلیم اسکول کی سطح پر دی جائے گی۔

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اردو کی بنیادی تعلیم کو اسکولوں میں پھر سے شروع کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کا ادب تو کیا کوئی بھی ادب اس وقت تک زندہ رہے گا جب زبان کی تعلیم اسکول کی سطح پر دی جائے گی۔ یہ بات انہوں نے ماہنامہ گل بوٹے ممبئی کی سلور جبلی تقریبات کے افتتاحی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے گل بوٹے جیسے ادارے کی خدمات قابل ستائش ہیں انہوں نے گل بوٹے کے ایڈیٹر فاروق سید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے پروفیسر وں کو ایوارڈ دینے کے بجائے ان جیسے اردو کے خادموں کو ایوارڈ ملنا چاہیے، انہوں نے اس موقع پر اردو کی بنیادی تعلیم کو اسکولوں میں پھر سے شروع کرانے کے لیے قومی اردو کونسل کی کوششوں کا ذکر بھی کیا۔


ماہنامہ گل بوٹے ممبئی سلور جبلی تقریبات کے چار روزہ عالمی سمینار کا افتتاحی جلسہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا جس میں کناڈا سے تشریف لانے والے بچوں کے مشہور ادیب پروفیسر ادریس صدیقی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بچوں کی کہانیوں کی چھ ہزار سالہ تاریخ کا احاطہ کیا اور کہاکہ بچوں کا ادب یا کہانیاں ہر دور میں موجود رہی ہیں اس کی شکل اور پیش کش بدلتی رہی ہے، ہندوستان میں بھی ماں کی گود سے ہی بچوں کو کہانیاں سنائے جانے کی روایت رہی ہے۔

انہوں نے کناڈا کے تعلیمی اداروں اور کتب خانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بچوں میں ادبی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تمام طرح کی کتابیں موجود ہیں اور پبلک لائبریری میں سب سے بڑا گوشہ بچوں کے ادب کا ہوتا ہے، وہاں کتابوں کے ساتھ ساتھ آڈیو بکس،سنگ الاؤنگ بکس، فیل اینڈ ٹچ بکس بھی دستیاب ہوتی ہیں. پروفیسر صدیقی نے سمینار کی سمت و رفتار کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی بچوں کے بدلتے مزاج کے مطابق کہانی اور بچوں کے ادب کی پیشکش کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو بچے انٹرنیٹ کی وجہ سے کہانیوں سے دور ہوگئے ہیں انہیں ادب کی طرف واپس لانے کے لیے جدید وسائل کا استعمال کرنا ہوگا پروفیسر صدیقی نے ہندوستان کے طریقہ تعلیم کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے اس میں بنیادی تبدیلی لانے پر زور دیا۔


سمینار میں اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے پروفیسر صدیقی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چار ہزار سال پہلے سے کہانیاں رائج ہیں تو ان کی اہمیت آج بھی برقرار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑوں کے لیے لکھنے والے بچوں پر بھی توجہ دیں۔

ابتدائی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ وہ ادارہ گل بوٹے کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی سلور جبلی تقریبات کے لیے جامعہ ملیہ کا انتخاب کیا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں نے ہمیشہ بچوں کے ادب کو اہمیت دی جس کا اثر جامعہ کے تعلیمی نظام میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ آج کے افتتاحی جلسے میں پروفیسر عتیق اللہ بچوں کے ادیب غلام حیدر، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر محمد اختر صدیقی اور قاضی مشتاق احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔


پروگرام کے دوران مہاراشٹر سے آئے شاعر عرفان شاہ نوری کے شعری مجموعے حاشیے میں نیکیاں کا رسم اجرا بھی انجام پایا. افتتاحی جلسے کی نظامت ڈاکٹر ندیم احمد نے کی۔ افتتاحی جلسے کے بعد بچوں کا ادب- سمت رفتار پر باقاعدہ مقالات پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ڈاکٹر اسلم جاوداں پٹنہ، داکٹر عبدالحی،ڈاکٹر عادل حیات ڈاکٹر جاوید حسن دہلی نے بچوں کے ادب پر مقالات پیش کیے نظامت ڈاکٹر شاہنواز فیاض نے کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔