اترپردیش میں انکاؤنٹر کرنے کی ہوڑ مچی

یو پی کے اضلاع میں زیادہ سے زیادہ انکاؤنٹر کرنے کی ہوڈ مچی ہوئی ہے، ایک ضلع کی پولس اگر انکاؤنٹر میں کسی شخص کو مار دیتی ہے تو دوسرے ضلع کی پولس بے چین ہو اٹھتی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفرنگر/شاملی/نوئیڈا/بجنور: فروری کے آغاز میں یو پی کے ضلع پولس سربراہان کے تبادلوں کی ایک فہرست آنے والی تھی اور توقع کی جا رہی تھی کہ بڑی تعداد میں ضلع پولس سربراہان ادھر سے ادھر کر دئیے جائیں گے۔ اسی بیچ نئے ڈی جی پی نے چارج سنبھال لیا اور اچانک پولس اور بدمعاشوں کے بیچ تصادم کی خبریں منظر عام پر آنے لگی۔ 24 گھنٹے میں پولس نے 72 انکاؤنٹر کر ڈالے ، جن میں 6 بدمعاشوں کی موت ہو گئی۔ اس دن اکیلے مظفرنگر میں 7 انکاؤنٹر کے واقعات پیش آئے۔

حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ نئے ڈی جی پی کی نظروں میں خود کو بہتر ثابت کرنے کے لئے یہ کارروائیاں انجام دی گئیں۔ اس کے بعد کئی پولس سربراہوں کا تبادلہ عمل میں نہیں آیا۔

اسی طرح گزشتہ اتوار کو بھی پولس نے یکے بعد دیگرے ایک درجن سے زائد انکاؤنٹر کئے ۔ ان میں نوئیڈا کا سرون اور سہارنپور کا سلیم ماراگیا اور کئی بدمعاش گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔ اس ایک دن میں پولس نے 181 بدمعاشوں کوپکڑنے کا دعویٰ کیا۔ سوشل میڈیا پر پولس کی اس یک روزہ کارروئی کو حکومت کے حامیوں نے یوگی کا کمال بتاکر مشتہر کیا۔

یوگی حکومت کی پولس کی طرف سے کئے جا رہے انکاؤنٹروں پر سوالات اس لئے اٹھائے جا رہے ہیں کیوں کہ ماحول کافی دنوں تک پر سکون رہتا ہے اور اچانک تصادم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں مختلف اضلاع کی پولس میں زیادہ سے زیادہ انکاؤنٹر کرنے کی ہوڑ لگ جاتی ہے۔ انکاؤنٹروں کی ٹائمنگ کی وجہ سے بھی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ یوگی حکومت کی پولس نے 250 سے زیادہ ایف آئی آر درج کی ہیں ۔ ان میں تقریباً 50 بدمعاشوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور سینکڑوں کے گولی لگی ہے جبکہ 2 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ تمام ایف آئی آر کی تحریر میں ایک جیسی زبان استعمال کی گئی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

پولس کی تمام رپورٹوں کا لب و لباب یہ ہے ’’پولس کو مخبر کے ذریعہ اطلاع حاصل ہوئی کہ مبینہ بدمعاش فلاں مقام پر جرم کی نیت سے آنے والا ہے۔ پولس پارٹی وہاں پہنچی ، بدمعاشوں کو خبر دار کیا گیا۔ انہوں نے پولس پر فائر کر دیا جواب میں پولس کو گولی چلانی پڑی جس میں بدمعاش کو گولی لگ گئی۔ ہم (پولس) بدمعاش کو علاج معالجہ کے لئے ہسپتال لے کر جا رہے تھے کہ اس نے راستہ میں دم توڑ دیا۔ تصادم کے دوران فلاں انسپکٹر کو گولی چھوکر نکل گئی اور وہ بال بال بچ گئے۔ ‘‘

محض ایف آئی آر ہی نہیں بلکہ مقام واردات اور اطلاع دینے والے کے نام بھی میچ کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مظفرنگر کا سندھاولی پل، میرٹھ کا روہٹا روڈ، نوئیڈا کا بسرکھ اور شاملی میں کیرانہ کا کھیت اکثر میچ کر جاتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ انکاؤنٹر کے دوران بدمعاش کے پیر میں ایک ہی حصہ پر گولی کیوں لگتی ہے۔ یعنی گولی ہمیشہ گھٹنے کے نیچے اور پنڈلی کے اوپر لگتی ہے، اس کے بعد اس فرد کے پیر ٹھیک ہونے کےامکان ختم ہو جاتےہیں۔

ڈاکٹر آر پی سنگھ کا کہنا ہےکہ ’’پیر کے اس مخصوص حصہ پر اگر گولی لگے تو زندگی بھر لنگ رہ جاتا ہے۔ یہ جگہ اتنی نازک ہے کہ زخم تو بھر جاتا ہے لیکن ہڈی پھر کبھی نہیں جڑ پاتی ہے۔‘‘

کئی رپورٹوں کا معائنہ کر چکے سہارنپور کے وکیل جانثار کہتے ہیں ’’ہر بار یہی ہوتا ہے کہ پولس کی گولی بدمعاش کے پیر میں لگتی ہے اور بدمعاشوں کی گولی پولس کے ہاتھ میں۔ اور ہمیشہ یہ فرق رہتا ہے کہ پولس کی گولی بدمعاش کے پیر میں جا لگتی ہے اور بدمعاش کی گولی پولس اہلکار کے برابر سے گزر جاتی ہے۔‘‘

نام نہ شائع کرنے کی شرط پر ایک تھانہ انجارج کا کہنا ہے ’’آج کل تو بدمعاشوں کو ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ پیسہ بھی خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

اس سب کے بیچ کئی اضلاع کی پولس کے بیچ آپسی کھینچ تان بھی ہو رہی ہے جیسے میرٹھ میں ایس پی رہنما بلندر اور اس کی ماں کے قتل میں شامل بدمعاش وکاس جاٹ کو مظفر نگر پولس نے انکاؤنٹر میں مار دیا اس بات سے میرٹھ پولس بے چین ہو اٹھی۔ ایک طرف جہاں مظفرنگر پولس کی تعریف ہو رہی تھی وہیں دوسری طرف میرٹھ کی ایس ایس پی منجل سینی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کرائم برانچ کی ٹیم کو برخاست کر دیا۔ ایک دوسرا معاملہ بجنور میں ہوا۔ یہاں کے ایک لاکھ کے انعامی قرار خطرناک مجرم آدتیہ کی گرفتاری کے لئے بجنور پولس نے دن رات محنت کی ،لیکن آدتیہ آسانی سے عدالت میں پیش ہو کر جیل چلا گیا۔ ناراض پولس سربراہ پربھاکر چودھری نے پوری کرائم برانچ کو ہی معطل کر دیا۔ مظفرنگر میں ایک لاکھ کے انعامی بدمعاش روچن جاٹ کا بھی پولس کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ وکیل کے بھیس میں آکر اس نے عدالت میں خود سپردگی کر دی ۔ آدتیہ اور روچن تو خوش قسمت رہے ،لیکن ندیم نہیں رہا ۔ 8 سال جیل کی سزا کاٹ کر 10 ہزار کے انعامی ندیم کو ککرولی پولس نے انکاؤنٹر میں ڈھیر کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Mar 2018, 3:47 PM