کیوں نہ کہوں : ہفتہ جو گزر گیا

آج پوری دنیا میں بس ایک ہی خبر ہے اور وہ ہے کورونا وائرس، امریکی صدر کا چین کو گالیاں دینا، جرمنی میں لمبے وقفہ کے بعد فٹبال لیگ کا دوبارہ شروع ہونا یا پھر معیشت کا بدحال ہونا، سب اسی سے وابستہ ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

آج پوری دنیا میں بس ایک ہی خبر ہے اور وہ ہے کورونا وائرس، کورونا کی وجہ سے امریکی صدر کی چاہے دن و رات چین کو گالیاں دیتے رہنے کی خبر ہو، یا جرمنی میں ایک لمبے وقفہ کے بعد کورونا کی وجہ سے بیچ میں بند ہوئی فٹبال لیگ کے دوبارہ شروع ہونے کی خبر ہو یا پھر کورونا سے متاثر ہونے اور اس سے مرنے والوں کی تعداد میں مستقل اضافہ کی خبر ہو، یا پھر معیشت کو پٹری پر لانے کے لئے کورونا کے پھیلاؤ کے خوف کے با وجود لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کی خبر ہو۔ یعنی بس کورونا کے ارد گرد ہی ساری خبریں ہیں۔

اس ہفتہ کے دوران ہمارے ملک میں بھی کورونا سے جڑی دو خبریں تمام خبروں پر حاوی رہیں۔ ایک خبر منگل کو اس وقت سامنے آئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں بیس لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا۔ دوسری خبر کوئی نئی نہیں ہے، ایسی خبریں آتی رہی ہیں، بلکہ آ رہی ہیں اور شائد آتی بھی رہیں گی، کیونکہ ایسی خبروں سے اقتدار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ خبریں ان گمنام غریب مزدوروں کے اپنے گاؤں واپس جانے کی ہیں اور واپسی کے سفر میں سڑک حادثوں میں ان کی جان جانے کی ہیں۔ ان خبروں سے اقتدار کے ایوان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


نرمی کے کچھ نئے ضوابط کے ساتھ معیشت کی دہائی دیتے ہوئے ملک کے کئی حصوں میں جاری لاک ڈاؤن کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ اقتصادی پیکج کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور معیشت کے ڈاکٹروں نے اس پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں صاف کہہ دیا ہے کہ اس پیکج سے سماج کے کمزور طبقہ کو کوئی فوری اور سیدھا فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے، بس یہ ایک بجٹ اعلانات کی طرح ہے جس میں منصوبوں اور اعداد و شمار سے کھیلا جاتا ہے۔ حکومتوں میں بیٹھے افسران اس فن کے ماہرہوتے ہیں جو حکومت چاہتی ہے وہ پروس دیتے ہیں۔

بہرحال سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی ریاستی حکومتیں اور خاص طور سے مرکزی حکومت اتنی لاچار ہیں کہ وہ ان غریب مزدوروں کو ان کے گھر نہیں پہنچا سکتیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ لا چاری ہے، بد انتظامی ہے یا پھر ان غریب مزدور وں کی ووٹ دینے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیا مرکزی حکومت کے پاس ٹرینیں نہیں ہیں؟ کیا وہ ریلوے کے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے رہی؟ کیا اس کے پاس ٹرینیں چلانے کے لئے ضروری انفراسٹرکچر نہیں ہے؟ کیا ریاستی حکومتوں کے پاس اپنی روڈ ویز بسیں نہیں ہیں؟ کیا ان کے پاس روڈویز کے ملازمین یعنی ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کو حکومت کورونا کے دوران تنخواہ نہیں دے رہی ہے؟ کیا ہر حکومت کے پاس وہ عملہ نہیں ہے جو ان مزدوروں کی نشاندہی کر لے اور ان کے گھروں کے حساب سے واپسی کا ایک شیڈیول بنا دے؟ یہ سب چیزیں موجود ہیں اور اس پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہونا ہے۔ اب پیسہ خرچ ہونا ہے تو ٹرین کی بجلی پر، ٹرین کے ایندھن اور بسوں کے ڈیزل پر اور تھوڑا بہت انفراسٹراکچر پر۔ پھر ایسا کیا ہے کہ حکومت نے ان کو ان کے گھر بھیجنے کا انتظام کیوں نہیں کیا۔ کیا حکومت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ کورونا کا قہر کتنے دن جاری رہے گا، کیا حکومت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ کچھ وقفہ کے بعد ان غریب دہاڑی مزدوروں کو پیسہ اور راشن کی کمی کے ساتھ رہنے والی جگہ کا کرایہ اتنا پریشان کرے گا کہ وہ مجبور ہو کر گھروں کی جانب ہجرت کریں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ حکومت کورونا کو ڈیل کرنے کے تعلق سے ہر محاذ پر فیل ہوئی ہے اور آج جب یہ مزدور پیدل، ٹرک، ٹریکٹر، سائیکل اور آٹو سے گھر کا ک رخ کر رہے ہیں تو کہیں وہ بھوک سے مر رہے ہیں، کہیں ٹرین کے نیچے کچلے جا رہے ہیں، کہیں ٹرک پلٹنے سے موت کا شکار ہو رہے ہیں تو کہیں بس اور ٹرک ان کو روند رہے ہیں۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور مرکزی وزیر خزانہ کے تمام بیانات آ رہے ہیں لیکن ان غریب مزدوروں کے تعلق سے پراسرار خاموشی نظر آ رہی ہے۔ وزیر خزانہ حزب اختلاف کے رہنما ان مزدوروں سے ملنے کو ڈرامہ تو قرار دے رہی ہیں، لیکن ان مزدوروں کی بہ حفاظت واپسی کے لئے کوئی اعلان نہیں کر رہیں۔

قومی آواز کی برسر اقتدار افراد سے تو درخواست ہے ہی، ساتھ میں تمام اہل وطن سے بھی درخواست ہے کہ ان غریب مزدوروں کی مدد کریں۔ ہم مذہبی جلوسوں میں تو سبیلیں لگاتے ہیں، ہم کانوڑیوں کی تو دن رات خدمت کرتے ہیں، آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے ان غریب ہموطن بھائی بہنوں کی بھی جتنی ممکن ہو سکے مدد کریں۔


خبروں کے لے قومی آواز کی ویب سائٹ www.qaumiawaz.com پر جائیں۔ ہماری ٹیم کی کوشش ہے کہ آپ کو تازہ ترین خبروں سے باخبر رکھے۔

قومی آواز کے قارئین و سامعین سے درخواست ہےکہ آپ کی حقیقی عید جب ہی ہے جب کوئی غریب بھوکا نہ ہو، اس کویقینی بنائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 May 2020, 8:11 PM
/* */