کسان کرانتی یاترا ختم، کچھ مطالبات منظور، کسانوں کی ناراضگی برقرار

بی کے یو (بھارتیہ کسان یونین) کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا، ’’فی الحال کسان راج گھاٹ اور کسان گھاٹ پہنچ کر لوٹ جائیں گے۔

کسانوں پر پانی کی بوچھار کا منظر/تصویر سوشل میڈیا
کسانوں پر پانی کی بوچھار کا منظر/تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

03 Oct 2018, 1:32 PM
حکومت طے شدہ وقت میں کسانوں کے مطالبات پورے کرے: کسان یونین

نئی دہلی: بھارتیہ کسان یونین نے کہا کہ حکومت طے شدہ وقت کے اندر کسانوں کے مسائل حل کرے ورنہ وہ پھر سے تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے۔

یونین کے قومی جنرل سکریٹری یودھ ویر سنگھ نے بدھ کو بتایا کہ کسانوں کے مسائل حل کرنے کے تعلق سے حکومت سے ملی یقین دہانی اور اس کے نمائندوں کو راجگھاٹ جانے کے بعد تحریک ختم کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس برس پرانے ٹریکٹر اور زرعی آلات کا استعمال جاری رکھنے اور فصلوں کی خرید اری کم از کم سہارا قیمت جیسے مطالبہ کو حکومت نے منظور کرلیا ہے۔

سنگھ نے بتایا کہ حکومت ٹریکٹر اور دیگر زرعی آلات کا استعمال دس برس بعد بھی جار ی رکھنے کے تعلق سے اپنا موقف گرین ٹریبونل میں رکھے گی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں وسیع پیمانہ پر کم از کم حمایتی قیمت پر فصلوں کی خریداری کی جائے گی۔ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مرکز قائم کئے جائیں گے۔ فصلوں کی خریداری تین مہینہ تک کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ منڈیوں میں فصلوں کی خرید کی بولی کم ازکم حمایتی قیمت سے کم پر نہیں لگے اس کے لئے نظم نسق کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے۔
(یو این آئی)

03 Oct 2018, 12:34 PM
کسان کرانتی مارچ ختم کرنے کے بعد بی کے یو کے سربراہ نریش ٹکیت نے کہا کہ کسان گھاٹ پر گلپوشی کر کے ہم تحریک کو ختم کر رہے ہیں۔ انہوں مزید کہا کہ حکومت کسان مخالف ہے اور ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے ہیں۔

کسانوں کے وہ مطالبات جو مان لئے گئے ہیں:

- دس سال پرانے ڈیزل ٹریکٹروں کے استعمال پر روک کے این جی ٹی کے فیصلہ کو پلٹا جائے۔ (حکومت اس پر نظرثانی کی درخواست پیش کرنے کو تیار ہو گئی ہے)

- منریگا کو کسانوں سے متعلق منصوبوں سے منسلک کیا جائے۔

- کسانوں سے وابستہ آلات پر جی اسی ٹی کم کی جائے۔

- کسانوں کو فصل بیمہ کا فائدہ دیا جائے۔

وہ مطالبات جن پر فیصلہ نہیں ہو پایا:

- کسانوں کے قرضوں کو معاف کیا جائے۔

- کسانوں کو ڈیزل کم داموں میں دستیاب کرایا جائے۔

- ٹیوب ویل کے لئے بجلی مفت فراہم کی جائے۔

- 60 سال سے زیادہ عمر کے چھوٹے کسانوں کو 5 ہزار روپے تک کی ماہانہ پنشن ادا کی جائے۔

03 Oct 2018, 8:58 AM

گزشتہ روز گاندھی جینتی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں اتر پردیش، پنجاب، ہریانہ، اتراکھنڈ اور راجستھان کے کسان دہلی میں داخل ہونے کو بے تاب تھے۔ ان کسانوں نے 23 ستمبر کو ’کسان کرانتی یاترا‘ کے نام سے اپنا مارچ شروع کیا تھا اور 9 دنوں کے پیدل سفر کے بعد یہ غازی آباد تک پہنچے۔ کسانوں کا ارادہ اپنے مطالبات کو لے کر راج گھاٹ پہنچنے اور صدائے احتجاج بلند کرنے کا تھا۔

کسانوں کی اس یلغار سے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کی یوگی حکومت بھی سہم گئی۔ آناً فاناً میں پولس اور سیکورٹی اہلکاروں کو سرحد پر تعینات کر دیا گیا اور کسانوں کے طوفان کو دہلی سرحد پر روک دیا گیا۔

کسانوں کو نہ صرف بیریکڈنگ کے ذریعہ روکا گیا بلکہ ان پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے واٹر کینن اور ٹیر گیس کے گولے بھی داغے گئے، یہاں تک کہ لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ اس دوران کسانوں کے وفود کی حکومت کے ساتھ گفت و شنید جاری رہی۔ رات تک روٹھنے منانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ آخر کار دیر رات گئے حکومت نے کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور انہیں قومی راجدھانی میں واقع کسان گھاٹ (چودھری چرن سنگھ کی سمادھی) جانے کی اجازت دے دی گئی۔

بی کے یو (بھارتیہ کسان یونین) کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا، ’’فی الحال کسان راج گھاٹ اور کسان گھاٹ پہنچ کر لوٹ جائیں گے۔ کسانوں کے جو مطالبات رہ گئے ہیں ان سے متعلق لیٹر حکومت کو سونپ دیا گیا ہے اور حکومت نے وقت مانگا ہے، لاٹھی چارج پر دہلی پولس نے معافی مانگی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’کسان گھاٹ پر پھول چڑھا کر ہم اپنی تحریک واپس لے رہے ہیں، ہمیں دہلی میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا اس لئے ہم نے احتجاج کیا۔‘‘

دراصل کسان جن مطالبات کو لے کر سڑکوں پر اترے تھے ان میں قرض معافی، گنا پیمنٹ اور کسانوں کے لئے پنشن کی مانگیں اہم طور سے شامل تھیں۔ مرکزی حکومت نے کچھ مطالبات کو ہی قبول کیا ہے جس کے سبب کسانوں کی ناراضگی ابھی برقرار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔