گراؤنڈ رپورٹ: ’بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو کیرالہ میں تشدد بڑھنے کا خدشہ‘

کیرالہ میں اس وقت جس شدت کی گرمی ہے اس کا احساس آپ کو اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ آپ یہاں آکر نہ دیکھیں۔ اسی گرما گرم انتخابی ماحول میں تشہیری سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

پتھنم تھٹّا کی انتخابی لڑائی اب یو ڈی ایف، ایل ڈی ایف اور بی جے پی کے درمیان کا سہ رخی مقابلہ بن چکا ہے۔ یہاں سے کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف کے امیدوار اینٹو اینٹنی اس بار جیت کی ہیٹرک لگانے کی امید میں ہیں۔ اینٹنی ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنھوں نے سبریمالہ میں خواتین کے داخلے کی مخالفت کرنے والوں کی کھل کر مخالفت کی تھی۔

دوسری طرف سی پی ایم کی قیادت والے ایل ڈی ایف کو اپنی سیکولر شبیہ کی بنیاد پر فتح کی امید ہے۔ اگر ایل ڈی ایف کی امیدوار اور ارنمولا کے رکن اسمبلی وینا جارج یہاں سے فتحیاب ہوتے ہیں تو ایل ڈی ایف کے اس رخ کی فتح ہوگی جو اس نے سبریمالہ معاملے پر لیا تھا۔ وینا جارج صحافی رہ چکی ہیں اور لوگوں سے ملتی جلتی رہتی ہیں۔

گراؤنڈ رپورٹ: ’بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو کیرالہ میں تشدد بڑھنے کا خدشہ‘

ان کے علاوہ بی جے پی سبریمالہ مندر میں خواتین کے داخلے کے ایشو پر تشدد سے بھرپور ماحول کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ سبریمالہ احتجاج کے دوران ہوئے تشدد کے معاملے پر بی جے پی امیدوار کے. سریندرن پر اس ضلع میں داخلے پر پابندی بھی لگی تھی۔

پتھنم تھٹّا لوک سبھا حلقہ دو اضلاع میں پھیلا ہوا ہے۔ ان میں پتھنم تھٹّا کے علاوہ کوٹیم ضلع کا کچھ حصہ بھی شامل ہے اور اس لوک سبھا حلقہ میں 7 اسمبلی سیٹیں ہیں۔ پونجار، کانجیراپلّی، تھیرولا، ارنمولا، کونّی اور ادور اسمبلی سیٹیں اسی لوک سبھا حلقے کا حصہ ہیں۔ ان دونوں اضلاع میں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ مرکزی وزیر کے جے الفونس یہاں سے انتخاب لڑنا چاہتے تھے، لیکن پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا۔

2014 کے لوک سبھا انتخاب میں یو ڈی ایف نے سبھی ساتوں اسمبلی حلقوں میں اچھی کارکردگی پیش کی تھی۔ ان میں رانی، تھرولا اور ادور سیٹیں بھی شامل ہیں جہاں سے قبل میں ایل ڈی ایف جیتتی رہی ہے۔ لیکن 2016 کے اسمبلی انتخاب میں ان تینوں سیٹوں پر ایل ڈی ایف کی ہی جیت ہوئی تھی۔

ان سب کے درمیان ایک بات صاف ہے کہ بھلے ہی انتخابی پنڈت کچھ بھی کہیں، اس ضلع میں بی جے پی کی کوئی لہر نہیں ہے۔ بی جے پی امیدوار سریندرن ہفتہ کے روز ارنمولا علاقے میں ووٹ مانگنے گئے، لیکن انھیں لوگوں کی کوئی خاص حمایت ملتی نظر نہیں آئی۔ ان کے ساتھ ایک پوری ٹیم تھی، لیکن کہیں بھی 60-50 سے زیادہ لوگ انھیں سننے کے لیے جمع نہیں ہوئے۔

اس کے برعکس جب ایل ڈی ایف کی وینا جارج نے کانجیراپلی میں ریلی کی تو زبردست تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ ہر گاؤں سے لوگوں کی بھیڑ ان کے ساتھ جڑتی چلی گئی۔ اس پورے علاقے میں گھومنے پر پتہ چلتا ہے کہ تقریباً ہر 100 میٹر میں وینا جارج کا پوسٹر یا بینر لگا ہوا ہے۔ ان کے بعد بی جے پی کے پوسٹر نظر آتے ہیں، لیکن یو ڈی ایف امیدوار اینٹنی کا پوسٹر بہت زیادہ نہیں ہے۔

یو ڈی ایف کے انٹو اینٹنی اتوار کے روز پونجار میں اشتہار کے لیے نکلے، وہ گھر گھر اشتہار نہیں کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ نظر نہیں آتے۔ خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ اینٹو اینٹنی کو ٹکٹ دیے جانے سے مقامی لیڈر خوش نہیں ہیں۔

لیکن پتھنم تھٹّا ضلع کے کانگریس صدر بابو جارج اسے خارج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ کچھ نہیں بس ایل ڈی ایف کی اڑائی ہوئی افواہ ہے۔ جب کانگریس کی مرکزی قیادت نے ہم سے نام مانگے تھے تو ہم نے ہمیشہ کی طرح دو ایک نام بھیجے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے امیدوار کے ساتھ نہیں ہیں۔‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ماحول پوری طرح ایل ڈی ایف کے حق میں ہے۔ دراصل یہاں معاملہ کافی الجھا ہوا نظر آتا ہے۔

بھلے ہی پتھنم تھٹّا کی دہلی سے دوری 2700 کلو میٹر ہو، لیکن یہاں کے لوگوں کے درمیان قومی سطح کی سیاست پر بحث خوب ہوتی ہے۔ یہ لوگ بالاکوٹ یا پلوامہ کی بات نہیں کرتے، لیکن امت شاہ کے اس بیان کو جانتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کریں گے۔

یہاں کے ایک مقامی باشندہ کنجومال کہتے ہیں کہ ’’میں نے انتخاب کے بعد ہمارے ایم پی اینٹو اینٹنی کو دیکھا تک نہیں ہے۔ پتہ نہیں کچھ کام کیا بھی ہے یہاں یا نہیں۔ ویسے بھی آج کل کون لیڈر کام کرتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر بی جے پی آ گئی تو ہماری زندگی محال ہو جائے گی۔ ویسے بھی لیفٹ کی قومی سطح پر بہت زیادہ موجودگی نہیں ہے، ایسے میں یو ڈی ایف کو ہی ووٹ دینا مناسب ہوگا۔‘‘

گراؤنڈ رپورٹ: ’بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو کیرالہ میں تشدد بڑھنے کا خدشہ‘

نیلّاڈ کے باشندہ جے سی تھامس کا کہنا ہے کہ ’’اینٹنی کی بیوی بھی انتخابی تشہیر کر رہی ہیں اور وہ مذہبی خاتون ہیں۔‘‘ تھامس بتاتے ہیں کہ اگر یو ڈی ایف اقتدار میں آئی تو کم از کم تشدد تو نہیں ہوگا۔ لیڈر بھلے ہی اس علاقے میں سبریمالہ کو ایشو بنا رہے ہوں، لیکن یہاں کے لوگوں کے لیے دوسرے ایشوز زیادہ اہم ہیں۔ مثلاً ربر کی قیمتیں گر رہی ہیں جس سے لوگوں کے سامنے مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ دراصل ہندوستان-ملیشیا کے درمیان تجارتی سمجھوتہ ہونے کے بعد ربر پر درآمد ٹیکس کم ہوا تھا، اس سے گھریلو ربر کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ آئی تھی۔ خلیجی ممالک میں کام کر کے لوٹے شمناس بتاتے ہیں کہ سبریمالہ معاملے پر سبھی لیڈر خاموش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’حال ہی میں انتقال ہوئے کے ایم منی ہی ایسے لیڈر تھے جنھیں اس ایشو کی فکر تھی۔‘‘

اس کے علاوہ گزشتہ دنوں آئے سیلاب کے بعد کے راحتی کاموں کو لے کر بھی لوگوں میں ناراضگی ہے۔ پتھنم تھٹّا سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں سے ایک ہے۔ کئی لوگوں کو ابھی تک نقصان کا معاوضہ نہیں ملا ہے۔ کونّی کے ایلیارکل میں رہنے والی ریوتی بتاتی ہیں کہ ’’سیلاب اور بارش میں میرے دیور اس کی بیوی کی موت ہو گئی تھی اور گھر ٹوٹ گیا تھا۔ حکومت نے گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔‘‘ ریوتی نے پچھلی بار اسمبلی انتخاب میں ایل ڈی ایف کو ووٹ دیا تھا لیکن پنچایت انتخاب میں ان کا ووٹ یو ڈی ایف کے حصے میں آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بار تو وہ بی جے پی کو قطعی ووٹ نہیں دیں گی کیونکہ انھوں نے تشدد کو فروغ دیا تھا۔

اس علاقے میں بہت سے وہ لوگ بھی واپس آ رہے ہیں جو خلیج ممالک میں کام نہ ملنے سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پینے کے پانی اور جنگلوں میں رہنے والے قبائلیوں کے ایشوز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ حالانکہ انتخابی کمیشن نے سبریمالہ مندر میں خواتین کے داخلے کو انتخابی ایشو بنانے پر روک لگا دی ہے، لیکن سبھی پارٹیاں اس کا استعمال کر رہی ہیں۔

پتھنم تھٹّا لوک سبھا سیٹ پر قریب 13.5 لاکھ ووٹر ہیں۔ ان میں سے تقریباً 9.6 لاکھ ووٹر یعنی 70.5 فیصد ووٹ ڈالتے رہے ہیں۔ ان میں تقریباً 56 فیصد ہندو ووٹر، 38 فیصد عیسائی اور 4.6 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ یو ڈی ایف کے اینٹو اینٹنی کیتھولک طبقہ سے آتے ہیں جب کہ ایل ڈی ایف کی وینا جارج آرتھوڈاکس چرچ کی ماننے والی ہیں۔ وینا جارج کی حمایت میں آرتھوڈاکس چرچ کھل کر سامنے آتا رہا ہے اور کئی پادری بھی ان کی تشہیر کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ الگ نظر آتا ہے۔ چرچ خاموش ہے، بس جیکب طبقہ ضرور ان کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Apr 2019, 3:10 PM
/* */