کشمیر: جواں سال نوجوان کی موت کے بعد سری نگر میں کشیدگی، سخت ترین پابندیاں عائد

سری نگر کے مضافاتی علاقہ الاہی باغ بژھ پورہ سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ نوجوان یاسر احمد جو مبینہ طور پر 6 اگست کو صورہ کے آنچار علاقے میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں زخمی ہوگیا تھا

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کے مضافاتی علاقہ الاہی باغ بژھ پورہ سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ نوجوان یاسر احمد جو مبینہ طور پر 6 اگست کو صورہ کے آنچار علاقے میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں زخمی ہوگیا تھا، قریب ایک ماہ تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بدھ کی صبح سری نگر کے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائسنز میں دم توڑ گیا۔

یاسر احمد کی موت واقع ہوجانے کے ساتھ ہی سری نگر میں کشیدگی پھیل گئی ہے اور انتظامیہ نے احتیاط کے طور پر پائین شہر، صورہ اور اس کے نزدیکی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ الاہی باغ بژھ پورہ کو جانے والے تمام راستے سیل کئے گئے ہیں۔


ذرائع نے الاہی باغ کے نوجوان کی موت واقع ہوجانے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا: '6 اگست یعنی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی کے ایک روز بعد صورہ کے آنچار نامی علاقے میں سیکورٹی فورسز پر پتھرائو ہوا اور جوابی کارروائی میں کچھ نوجوان زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر نزدیک میں واقع شیر کشمیر انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا'۔

انہوں نے کہا: 'زخمیوں میں سے 18 سالہ اسرار احمد ولد فردوس احمد ساکنہ الاہی باغ بژھ پورہ بدھ کی صبح دم توڑ گیا۔ اسرار احمد مبینہ طور پر پیلٹ لگنے سے شدید طور پر زخمی ہوا تھا'۔ اسرار احمد مرکزی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد وادی کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال میں جاں بحق ہونے والے پہلے عام شہری ہیں۔ تاہم سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک زخمی ہونے والے نوجوانوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔


کشمیر انتظامیہ نے اسرار احمد کی موت واقع ہوجانے کے ساتھ ہی سری نگر کے بیشتر حصوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی ہیں۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جنہوں نے بدھ کی صبح سری نگر کے پائین شہر، صورہ اور دوسرے نزدیکی علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق ان علاقوں میں سخت ترین پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔

نالہ مار روڑ کو سیل کیا گیا ہے اور کسی کو بھی اس روڑ پر چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق ناگہ بل، احمد نگر، الاہی باغ، صورہ، جڈی بل، حوال، راجوری کدل، نوہٹہ، صفا کدل، کائو ڈارہ، بل بل لانکر اور نواح کدل جیسے علاقوں میں سڑکیں مکمل طو رپر سیل کی گئی ہیں۔


نامہ نگار نے کہا کہ پابندی والے علاقوں میں کسی بھی گاڑی کو چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور شہریوں کو اپنے گھروں تک ہی محدود رہنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ سیکورٹی فورسز نے تمام حساس جگہوں پر بلٹ پروف گاڑیاں اور ایک ساتھ متعدد آنسو گیس کے گولے داغنے والی گاڑیاں کھڑی کر رکھی ہیں۔

یو این آئی کے فوٹو جرنلسٹ نے کہا کہ جب انہوں نے نواح کدل میں سنسان سڑک کی فوٹو لینی چاہی تو سیکورٹی فورسز اہلکاروں نے انہیں روکتے ہوئے ان سے کیمرا چھیننے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا: 'میں نے جب خاردار تار سے سیل سرک کی فوٹو لینی چاہی تو وہاں تعینات سیکورٹی فورسز اہلکاروں نے مجھے روکا اور کہا میڈیا بند ہے تو تم آزاد کیسے گھوم رہے ہو۔ انہوں نے مجھ سے میرا کیمرا چھیننے کی بھی کوشش کی تھی'۔


دریں اثنا وادی کشمیر دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف بدھ کے روز مسلسل 31 ویں دن بھی بند رہا۔ وادی بھر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے۔ تاہم بدھ کے روز بھی سری نگر اور مختلف اضلاع کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر نجی گاریاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔

وادی کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر، بنکوں اور نجی دفاتر میں جاری ہڑتال اور مواصلاتی بندش کی وجہ سے معمول کا کام کاج بری طرح متاثر ہے۔ وادی میں جموں خطہ کے بانہال سے شمالی کشمیر کے بارہمولہ تک چلنے والی ریل خدمات بھی معطل ہیں۔ ریل گاڑیوں کو ریلوے اسٹیشن بڈگام میں کھڑا رکھا گیا ہے جہاں سیکورٹی کے وسیع انتظامات ہیں۔


سول لائنز اور بالائی شہر میں بدھ کے روز بھی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ 31 ویں دن بھی سڑکوں سے غائب رہا۔ سول لائنز اور بالائی شہر میں کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے لئے بڑی تعداد میں فورسز اہلکار تعینات رکھے گئے ہیں۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز بھی وادی کے دیگر 9 اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کلی طور پر غائب رہا۔ تاہم اضلاع میں بھی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔

وادی میں معمول کی زندگی 5 اگست کو اس وقت معطل ہوئی جب مرکزی حکومت نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 ہٹادی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنانے کا اعلان کردیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔