کشمیر: ہڑتال اور پابندیوں کا 89 واں دن، جامع مسجد میں 13 ویں بار نماز جمعہ پر روک

وادی کشمیر میں جمعہ کے روز بھی جہاں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے باعث مسلسل 89 ویں دن بھی معمولات زندگی متاثر رہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں جمعہ کے روز بھی جہاں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے باعث مسلسل 89 ویں دن بھی معمولات زندگی متاثر رہے۔ ادھر پائین شہر کے مختلف حصوں میں جمعہ کو لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں عائد رہیں جس کی وجہ سے جہاں نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے منبر ومحراب لگاتار 13 ویں ہفتے بھی خاموش رہے وہیں حضرت بہاؤ الدین نقشبند صاحب کے سالانہ عرس کے سلسلے میں خانقاہ نقشبندیہ نقشبند صاحب میں سالانہ و تاریخی خوجہ دگر (نماز عصر کا اجتماع) منعقد نہیں ہوسکا۔

بتادیں کہ مرکزی حکومت کے مسلم اکثریتی جموں کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اسے دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے فیصلوں کے خلاف وادی میں قریب تین ماہ سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ موصولہ اطلاعت کے مطابق وادی کے اطراف واکناف میں جمعہ کے روز بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہے، بازاربند رہے، تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل متاثر رہی تاہم نجی گاڑیوں کی نقل حمل جاری رہی۔


تاہم سری نگر کے بعض حصوں بالخصوص سول لائنز اور بالائی شہر میں جمعہ کی علی الصبح تین دن بعد دکانیں کھل گئیں اور گیارہ بجے تک کھلی رہیں جس دوران لوگوں نے ضرورت کی چیزیں خریدیں۔ اسی طرح اضلاع میں بھی دکانیں شام کے وقت دو سے تین گھنٹوں تک کھلی رہیں۔ سری نگر کے سول لائنز میں جمعہ کو تین دن بعد چھاپڑی فروش ضرورت کی چیزیں بالخصوص گرم ملبوسات فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت کم گاہک خریداری میں مصروف دیکھے گئے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے کچھ علاقوں میں جمعہ کو بھی چند ایک مقامات پر پتھراو کے واقعات پیش آئے جن کے دوران احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ان واقعات کے دوران کتنے افراد زخمی ہوئے یہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا۔


ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں جمعہ کی علی الصبح نامعلوم افراد نے دو گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ ان میں سے ایک گاڑی بی جے پی لیڈر عادل احمد گنائی کی تھی۔ ریاستی پولیس نے اس واقعہ، جو سری نگر جموں ہائی وے پر پیش آیا ہے، کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

دوسری جانب انتظامیہ کی طرف سے جمعہ کو پائین شہر کے مختلف حصوں بالخصوص نوہٹہ، گوجوارہ، نقشبند صاحب، بہوری کدل اور ملحقہ علاقوں میں لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ پابندیوں کی وجہ سے نوہٹہ میں واقع وادی کی چھ سو سالہ قدیم اور سب سے بڑی عبادت گاہ کی حیثیت رکھنے والی تاریخی جامع مسجد میں لگاتار 13 ویں ہفتے بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی جاسکی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حکام نے جمعہ کے روز جامع کے گرد وپیش سیکورٹی حصار کو مزید سنگین کیا تھا اور جامع کی طرف جانی والی سڑکوں کو مسدود کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی نمازی کو جامع کی طرف پیش قدمی کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔


بتادیں کہ جامع مسجد کو حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے جہاں وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک مخصوص خطبہ دیتے ہیں اور علاوہ ازیں بڑے موقعوں جیسے عید، شب قدر وغیرہ کے موقعوں پر وعظ بھی پڑھتے ہیں۔

سیکورٹی فورسز نے حضرت بہاو الدین نقشبند صاحب کی خانقاہ کی طرف جانے والے نقشبند صاحب روڑ کو مکمل طور پر سیل کیا تھا۔ اس کی وجہ سے یہاں تاریخی 'خوجہ' دگر ادا نہیں کیا جاسکا جو ہر سال حضرت بہائو الدین نقشبند صاحب کے عرس کے موقع پر ادا کیا جاتا تھا اور جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں شرکت کرتے تھے۔


وادی میں ریل سروس پانچ اگست سے مسلسل معطل ہے۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے موصولہ ہدایات پر لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے لئے بنا بر احتیاط بند رکھا گیا ہے۔ شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں کے تمام چھوٹے بڑے بازاروں میں جمعہ کے روز بھی دکانیں بند رہیں اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں، سڑکوں سے پبک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم بعض ایمرجنسی محکموں بشمول محکمہ حفظان صحت کی گاڑیوں کے علاوہ نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل برابر جاری رہی۔

وادی کے دیگر شمال وجنوب کے ضلع صدر مقامات و قصبہ جات کے تمام چھوٹے بڑے بازار جمعہ کے روز بھی بند رہے، تجارتی سرگرمیاں معطل اور پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل متاثر رہی تاہم نجی گاڑیاں چلتی رہیں۔

وادی میں اگرچہ مواصلاتی ذرائع پر اگرچہ پابندیوں کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے لیکن براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات مسلسل معطل ہیں جو لوگوں کے لئے بالعموم اور صحافیوں اور طالب علموں کے لئے بالخصوص سوہان روح بن گئی ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے اور بنیادی سہولیات سے عاری کمرے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔ انہوں نے انتطامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کا مطالبہ دوہرایا ہے۔


وادی کے سرکاری دفاتر وبنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہورہا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں گزشتہ قریب تین ماہ سے سناٹا چھایا ہوا ہے۔ تاہم سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت امتحانات شروع ہوئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ بیشتر مین اسٹریم سیاسی لیڈران پانچ اگست سے بدستور خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ محبوس لیڈروں میں نیشنل کانفرنس کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر بند ہیں جبکہ اُن کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ ہری نواسن میں ایام اسیری کاٹ رہے ہیں اور پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی مسلسل نظر بند ہیں۔ مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Nov 2019, 5:00 PM