کشمیر: سکمز صورہ میں پلازمہ بینک قائم کرنے کی تیاری

ڈاکٹر اے جی آہنگر نے کہا کہ حکومت کی اجازت سے ہم ایک پلازمہ بینک بنانا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض اس سے مستفید ہوسکیں، اس میں لوگوں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سکمز) صورہ سری نگر کے ناظم ڈاکٹر اے جی آہنگر نے کہا ہے کہ حکومت کی اجازت سے وہ ایک پلازمہ بینک قائم کرنے جا رہے ہیں تاکہ کورونا میں مبتلا زیادہ سے زیادہ مریض اس طریقہ علاج سے استفادہ کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بینک کے قیام کے لئے میڈیا کے مختلف ذرائع سے ایک جانکاری مہم شروع کی گئی ہے اور اس میں لوگوں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ بتادیں کہ پلازمہ خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جس کو ایک مشین کے ذریعے خون کے خلیے کو علیحدہ کرنے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس میں اینٹی باڈیز اور دوسرے پروٹینز ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس سے مکمل طور پر صحت یاب ہونے والے مریض سے حاصل کیے جانے والے پلازمہ کو کورونا کے اس مریض میں منتقل کیا جاتا ہے جس کی حالت نازک ہوتی ہے، اس عمل کو 'پلازمہ تھیراپی' یا 'پیسو امیونائزیشن' کہتے ہیں۔


موصوف ناظم نے کہا کہ 'حکومت کی اجازت سے ہم ایک پلازمہ بینک بنانا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض اس سے مستفید ہوسکیں، ہم نے اس کے لئے میڈیا کے مختلف ذرائع سے ایک جانکاری مہم شروع کی ہے اس میں لوگوں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے'۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کے لئے فی الوقت دو سو ویکسینز کی ٹرائل ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا کے علاج کے لئے دو سو ایسے ویکسینز ہیں جو مختلف مرحلوں کی ٹرائلز سے گزر چکے ہیں لیکن ابھی کسی بھی ویکسین کے لئے حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے، جو اعداد و شمار آتے ہیں ان کے مطابق لگتا ہے کہ اس سال کے آخر تک ایک موثر ویکسین تیار ہوسکتی ہے'۔

ڈاکٹر آہنگر نے کہا کہ کورونا کے علاج کے جو تازہ طریقے اپنائے جارہے ہیں وہ تجربے ہیں علاج نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین آنے تک کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کی جارہی گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ موصوف ناظم سکمز نے کہا کہ کیمونٹی سطح ہو یا سماجی وجوہات وائرس بہت ہی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کو کنٹرول کرنے لے لئے عالمی صحت ادارے کے ساتھ چلنا بہت ہی ضروری ہے۔


انہوں نے کہا کہ جو لوگ مختلف عارضوں جیسے عارضہ قلب، ہائپر ٹینشن، گردوں کے عارضے، عارضہ جگر، کینسر وغیرہ میں مبتلا ہوتے ہیں وہ زیادہ آسانی سے اس انفکشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی شرح اموات بھی بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر آہنگر نے کہا کہ کورونا کے بیچ زندہ رہنے کے لئے ہمیں زندگی کو نئے طریقے سے جینا پڑے گا اور انٹرنیٹ سہولیات کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا پڑے گا اور ای منیجمنٹ کے ذریعے تعلیم، تجارت، حکومت اور اقتصادیات کو چلانے پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں لوگوں نے احتیاط کیا تھا لیکن اب لوگ احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہے ہیں جس کی وجہ سے وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موصوف ڈاکٹر نے کہا کہ کورونا متاثرین میں مردوں میں خواتین کے نسبت شرح اموات زیادہ ہے۔ مردوں کی شرح اموات 72 فیصدی ہے جبکہ خواتین کی 29 فیصدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وائرس سے متعلق جو اموات اب تک ہوئی ہیں اس میں 90 فیصدی چالیس برس کی عمر سے زیادہ کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔