کشمیر: تاریخی جامع مسجد 15 ویں جمعے کو بھی مقفل، نماز پر پھر قدغن

وادی کشمیر میں 103 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال سایہ فگن رہنے کے بیچ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے محراب ومنبر 15 ویں جمعہ کو بھی خاموش رہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں 103 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال سایہ فگن رہنے کے بیچ جہاں ایک طرف معمولات زندگی پٹری پر آرہے ہیں تو وہیں انٹرینٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی مسلسل معطلی کے ساتھ ساتھ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے محراب ومنبر 15 ویں جمعہ کو بھی خاموش رہے۔

بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے یمین و یسار میں جمعہ کے روز اگرچہ معمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے نظر آئے تاہم عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات و جلسہ وجلوس ہائے میلاد کا انعقاد دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث معطل رہا، بازار صبح اور شام کے وقت کھل گئے اور سڑکوں پر بھی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل بالخصوص نجی ٹرانسپورٹ کی آمد رفت برابر جاری رہی۔

پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع وادی کی قدیم ترین عبادت گاہ جامع مسجد جمعہ کے روز مسلسل 15 ویں جمعہ کو بھی مقفل ہی رہی، انتظامیہ نے جامع کے گرد وپیش سیکورٹی حصار کو حفظ امن کے پیش نظر مزید سنگین کیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق جامع بازار میں صبح کے وقت کچھ دکان کھل گئے تھے تاہم وہ بارہ بجنے سے قبل ہی بند ہوگئے۔ واضح رہے کہ وادی کشمیر کے گوشہ کنار میں عید میلاد النبی (ص) کے سلسلے میں ہقہ بھر تقریبات اور جلسہ و جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا تھا لیکن نامساعد حالات کے پیش نظر امسال تمام تر تقریبات مفقود ہی رہیں۔


تاہم درگاہ حضرت بل میں جمعہ کے روز عید میلاد النبی (ص) کے سلسلے میں آخری تقریبات انتہائی سادگی کے ساتھ انجام پذیر ہوئیں اور لوگوں کی انتہائی قلیل تعداد کو ہی موئے مقدس کا دیدار نصیب ہوا۔ یواین آئی اردو کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ درگاہ حضرت بل کی طرف جانے والے روڑ کے نصف حصے کو این آئی ٹی سری نگر کے نزدیک سیل کیا گیا تھا اور کئی جگہوں پر لوگوں کی پوچھ تاچھ بھی کی جاتی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے زائرین کے لئے ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے بہت کم زائر موئے پاک کے دیدار سے فیضیاب ہوسکے۔

وادی میں اگرچہ مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر پابندیاں ہنوز جاری ہیں جس کے باعث صحافی، طلبا، تجار اور ای کامرس سے وابستہ لوگوں کی پریشانیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
سری نگر نیشن صحافیوں نے 'تنگ آمد بہ جنگ آمد' کے مصداق گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کی بحالی کے لئے احتجاج کیا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی کے باعث انہیں اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے چھوٹے کمرے میں روزانہ بنیادوں پر ٹھٹھرتی سردی میں جانا پڑتا ہے۔


وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی جمعہ کے روز معمولات زندگی کو بحال ہوتے ہوئے دیکھا گیا، بعض علاقوں میں بازار صبح کے وقت کھل گئے جبکہ بعض میں دوپہر کے بعد ہی دکان کھل کر شام گئے تک کھلے رہے، سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت بھی جزوی طور بحال ہوتی ہوئی نظر آئی۔

وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہوا ہے اور تعلیمی اداروں میں بھی امتحانات کے پیش نظر طلبا کی چہل پہل بڑھ گئی ہے تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست کے بعد یہاں کے تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں بحال نہیں ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں، مسلسل حراست میں ہیں تاہم انتظامیہ نے مین اسٹریم لیڈروں کی رہائی سلسلہ شروع کیا ہے۔ مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */