سپریم کورٹ نے راحت تو دی، لیکن پوری نہیں

سپریم کورٹ اکثریت ثابت کرنے کا حکم دینے سے قبل ہی وزیر اعلیٰ کی تقرری کو خارج کر سکتا تھا، جو کہ ایک درست فیصلہ ہوتا۔ غیر قانونی طور سے مقرر وزیر اعلیٰ کا عہدے پر بنے رہنے کا کیا جواز ہے؟

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

تو کیا سپریم کورٹ نے ہماری جمہوریت کو بچا لیا اور آئین کی حفاظت کی؟ اکثریت ثابت کرنے کا حکم دینا اور ایک اینگلو انڈین کی گورنر کی طرف سے کی گئی تقرری کو خارج کر دینا اتنا غیر متوقع تھا کہ لوگوں نے راحت اور خوشی کا اظہار کیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے ایسا محسوس ہوا کہ آئین پر لوگوں کا یقین بنا رہ گیا۔

لیکن اس سے قبل کہ میں اپنے کچھ خدشات کو ظاہر کروں، فیصلہ دینے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے ارکان جسٹس سیکری، جسٹس بوڈبے اور جسٹس بھوشن کے اس فیصلہ کے کچھ چنندہ نکات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:

  1. عدالت عظمیٰ نے 19 مئی کو شام 4 بجے فلور ٹیسٹ (اکثریت ثابت کرنا) کرانے کا حکم دیا اور یدی یورپا کے ایک ہفتہ کے مطالبہ کو مسترد کر دیا۔
  2. پروٹیم اسپیکر منتخب ارکان اسمبلی کو صرف حلف ہی نہیں دلوائیں گے بلکہ فلور ٹیسٹ کے طریقہ کار کا بھی فیصلہ کریں گے۔
  3. عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی خفیہ ووٹنگ کے عجیب و غریب درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔
  4. عدالت عظمیٰ نے وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کو کوئی بھی پالیسی ساز فیصلہ لینے سے روک دیا، جیسے انہوں نے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی کسانوں کی قرض معافی کا اعلان کر دیا تھا۔
  5. عدالت عظمیٰ نے کرناٹک کے ڈی جی پی کو یہ حکم جاری کیا کہ منتخب نمائندگان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
  6. سپریم کورٹ نے گورنر کی طرف سے اینگلو انڈین طبقہ کے ایک رکن کی نامزدگی کو بھی مسترد کر دیا۔
  7. سپریم کورٹ نے یہ صاف کر دیا کہ گورنر کے حقوق کے وسیع معاملہ پر سماعت ہوگی اور اس پر بھی کہ کیا وہ اس صورت میں بھی کسی پارٹی کو حکومت سازی کے لئے مدعو کر سکتے ہیں جبکہ وہ یہ دکھانے سے قاصر رہے کہ ان کے پاس واضح اکثریت موجود نہیں ہے۔

جمعرات کو اسی وجہ سے اپنی نصف شب کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ان کاغذات کو پیش کرنے کا حکم دیا جو حکومت سازی کا دعوی کرتے ہوئے بی جے پی ارکان اسمبلی کے رہنما نے گورنر کو سونپے تھے۔

جب عدالت عظمیٰ کے سامنے وہ لیٹر پیش کیا گیا تو یہ صاف ہو گیا کہ بی جے پی نے کسی اور پارٹی کے کسی بھی رکن اسمبلی کا نام نہیں دیا تھا اور نہ ہی دونوں آزاد امیدواروں کے نام یدی یورپا کے لیٹر میں شامل تھے۔

بالفاظ دیگر یہ کہیں کہ بی جے پی نے جب گورنر سے ملاقات کی تو ان کے پاس 112 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ دوسری جانب ایچ ڈی کماراسوامی کی طرف سے سونپے گئے لیٹر میں 117 ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعوی کیا گیا تھا۔

ان لیٹروں سے نہ تو تعداد کے حوالہ سے کوئی شبہ رہ جاتا ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ گونر کے ذریعہ بی ایس یدی یورپا کی تقرری غیر آئینی تھی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور سے مقرر کئے گئے بغیر اکثریت کے وزیر اعلیٰ کو عہدے پر برقرار رکھا اور تمام ایگزیکیوٹیو فیصلے لینے کی چھوٹ دی۔

سپریم کورٹ کے لئے آسان تھا کہ فلور ٹیسٹ کا حکم دینے سے پہلے وہ وزیر اعلیٰ کی تقرری کو ہی خارج کر دیتی۔ جو کہ ایک صحیح فیصلہ ہوتا۔ غیر قانونی طور سے مقرر وزیر اعلی کس طرح اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے؟

سپریم کورٹ پہنچے عرضی گزاروں نے گورنر کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے پیچھے ہٹتے ہوئے اس مدے کو نظر انداز کر دیا۔

لوگوں کو یقینی طور سے بھروسہ ہے کہ کسی بھی طرح کی دھمکی یا لالچ کام نہیں آئے گا۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ گورنر اور غیر قانونی طور سے مقرر وزیر اعلیٰ فلور ٹیسٹ کو متاثر کرنے کے لئے اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو لوگ سپریم کورٹ کو ہی الزام دیں گے کہ اس نے اہم مدے پر فیصلہ نہ لے کر آسان راستہ اختیار کیا اور نہ ہی گورنر کی کوئی مذمت کی اور نہ ہی پوری طرح غیر آئینی تقرری کو خارج کیا۔

اگر ایمانداری سے کہیں تو سپریم کورٹ کے جج بہت زیادہ دباؤ میں ہوں گے اس لئے ججوں نے اس طرح کا فیصلہ دیا کہ حکومت سے سیدھا ٹکراؤ نہ ہو۔

لیکن چھوٹی چھوٹی راحتوں سے لوگوں کو اطمینان کرنا ہوگا اور امید کرنی ہوگی کہ عوام الناس کی رائے اور آئین کا بنیادی مقصد آگے بڑھتا رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 May 2018, 8:58 AM