کانپور تشدد: احتیاطی اقدامات لے لئے جاتے تو حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے

ملک کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھا جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور بیرون ممالک میں بھی اس کی شبیہ اچھی بنے۔ انتظامیہ کو مزید چاق وچوبند رہنے کی ضرورت ہے۔

کانپور میں پولیس کے حفاظتی انتظامات/ یو این آئی
کانپور میں پولیس کے حفاظتی انتظامات/ یو این آئی
user

اجے رتن

کانپور میں پہلے پُرتشدد جھڑپیں، بڑے پیمانے پر لوگوں کی گرفتاریاں، بی جے پی کی اپنے دو رہنماؤں کے خلاف کارروائی، پھر مسلم ممالک کی جانب سے سخت ناراضگی کا اظہار اور اب کانپور میں بلڈوزر کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ کچھ ہو نہ ہو لیکن اگر انتظامیہ وقت رہتے سخت قدم اٹھا لیتی تو کانپور میں جو حالات ایک دم سے خراب ہوئے ہیں ان سے کسی حد تک بچا جا سکتا تھا۔

کانپور میں احتجاج کی کال کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں ایک درجن افراد زخمی اور متعدد کو گرفتار کیا گیا۔ اس رات پولیس کے سائرن اور ہوٹر بجتے رہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی تنگ گلیوں میں پولیس کے قدموں نے خوف و ہراس اور غیر اعلانیہ کرفیو کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ پولیس کمشنر نے اعلان کیا تھا کہ شہر کا ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف ایسی سخت کارروائی کی جائے گی جسے یاد کر کے وہ چونک جائیں گے۔ لیکن لوگوں کا سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی۔ کیا انتظامی چوکسی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے وقت رہتے صورتحال کا اندازہ نہ لگانا ان حالات کے لئے ذمہ دار ہے۔


26 مئی کو ایک نیوز چینل پر گیان واپی کیس کے حوالے سے بحث کے دوران بی جے پی لیڈر نوپور شرما نے ایک سوال پر پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں متنازعہ بیان دیا۔ نوپور شرما کے اس بیان پر کئی مسلم تنظیموں نے ناراضگی ظاہر کی اور پھر یہ معاملہ پھیلتا چلا گیا۔ جگہ جگہ نوپور شرما کے بیان کے خلاف غصہ بڑھتا گیا اور اس نے کانپور میں پرتشدد جھڑپ کی شکل اختیار کر لی۔ کانپور میں جس وقت یہ پرتشدد مظاہرہ ہوا اس وقت صدر جمہوریہ، وزیراعظم اور گورنر آنندی بین شہر سے 70 کلومیٹر دور کانپور دیہات کے پروکھ گاؤں میں موجود تھے۔

اس تصادم میں ایک درجن سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس سارے معاملہ میں پولیس کی جانب سے لاپروائی کا ذکر ہو رہا ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ جمعہ کو مسلم علاقوں میں دفعہ 144 کیوں نافذ نہیں کی گئی؟ پرتشدد تصادم کے بعد جہاں بارہ کمپنی فورس کو تعینات کیا گیا، وہیں احتیاط کے طور پر فلیگ مارچ اور بڑی تعداد میں فورسز کو کیوں تعینات نہیں کیا گیا۔ مظاہرہ کی کال دینے والوں کے خلاف پہلے سے احتیاطی اقدام کیوں نہیں لئے گئے؟ لیکن شاید تمام تھانے والے ایک دوسرے کے پالے میں گیند پاس کر رہے ہیں۔ آخر کار یہ بڑا واقعہ ہو گیا۔ اس پورے واقعہ نے شہر کا فرقہ وارانہ ماحول متاثر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت کنٹرول کی وجہ سے شہر کے دیگر علاقوں میں بدامنی نہیں پھیلی۔


سابق رکن پارلیمنٹ سبھاشنی علی کا اس سارے معاملہ پر کہنا تھا کہ ’’کانپور واقعہ سے دو دن پہلے اشارہ ملا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد مسجد سے باہر نکلنے والے لوگوں کا ہجوم قابو سے باہر ہو گیا۔ دوسری برادری کے لوگوں نے اس پر پتھر برسائے، یا پہلا پتھر نمازیوں کی طرف سے پھینکا گیا۔ تاہم، ایک تصادم ہوا۔ جسے پولیس نے جلد قابو میں کر لیا جس کے سبب باقی شہر میں کچھ نہیں ہوا۔ لیکن اس واقعہ نے انتظامی چوکسی کی کوتاہیوں کو بھی بے نقاب کر دیا۔

اسیت کمار سنگھ نے عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتظامی عملے کی ناکامیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے انتہائی خاص مہمانوں کی آمد پر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی کارروائی بھی غیر منصفانہ ہے، فسادات میں دونوں برادریوں کے لوگ ملوث تھے جبکہ صرف ایک برادری کے خلاف گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس لئے اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور قصورواروں کو سزا دی جائے۔‘‘ ملک کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھا جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور بیرون ممالک میں بھی اس کی شبیہ اچھی بنے۔ انتظامیہ کو مزید چاق وچوبند رہنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔