جسٹس یشونت ورما معاملہ: تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں موجود اہم باتیں منظر عام پر
رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے بتایا کہ ’’ہم نے پایا کہ 30 تغلق کریسنٹ کے احاطہ واقع جس اسٹور روم میں نقد پیسے ملے تھے، وہ آفیشیل طور پر جسٹس ورما کے قبضہ میں تھا۔‘‘

رواں سال مارچ میں آگ لگنے کے بعد گھر کے اسٹور روم سے بڑی تعداد میں برآمد نقدی تنازعہ میں گِھرے جسٹس یوشنت ورما کی مشکلیں کم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ 22 مارچ کو سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل کردہ 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی جو رپورٹ جمع کی ہے، اس میں بتایا ہے کہ اسٹور روم پر جسٹس ورما کے اہل خانہ کی مکمل نگرانی تھی اور وہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان حقائق کے پیش نظر کمیٹی نے دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس یشونت ورما کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کی پیشکش کی۔
انگریزی نیوز پورٹل ’این ڈی ٹی وی‘ نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کردہ پینل نے 55 گواہوں سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ساتھ ہی تحقیقات کے بعد جسٹس ورما کا بیان بھی درج کیا گیا ہے، جس کے بعد کمیٹی نے 19 جون کی صبح 64 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں 2 اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے بتایا کہ ’’ہم نے پایا کہ 30 تغلق کریسنٹ کے احاطہ واقع جس اسٹور روم میں نقد پیسے ملے تھے وہ آفیشیل طور پر جسٹس ورما کے قبضہ میں تھا۔‘‘ رپورٹ کے دوسرے پوائنٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اسٹور روم تک جسٹس ورما اور ان کے اہل خانہ کے افراد کی ہی رسائی تھی اور وہاں کسی دوسرے کو بغیر کسی اجازت کے داخلہ ممنوع تھا۔‘‘ مذکورہ بالا نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ یہ بنیاد جسٹس ورما کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کافی ہے۔
’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک گواہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ’’میں نے اندر داخل ہوتے ہی دیکھا کہ داہنی جانب اور سامنے فرش پر 500 روپے کے نوٹوں کا ایک بڑا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ فرش پر بکھری ہوئی اتنی بڑی رقم دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اتنی تعداد میں نقد پیسے دیکھا تھا۔‘‘ ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جلی ہوئی نقدی کے ڈھیر انتہائی مشکوک اشیاء ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی رقم نہیں ہے۔ جسٹس ورما یا ان کے اہل خانہ کی رضامندی کے بغیر نہیں رکھے جا سکتے ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں کمیٹی نے جج کی بیٹی دیا ورما اور ان کے پرائیویٹ سکریٹری راجندر کارکی کے کردار کا بھی جائزہ لیا جنہوں نے مبینہ طور پر فائر فائٹرز سے کہا تھا کہ وہ نقد رقم کا ذکر نہ کریں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ نقدی تنازعہ کے بعد جسٹس ورما پر عائد الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیہ اور کرناٹک ہائی کورٹ کی جسٹس انو شیو رامن شامل تھے۔ کمیٹی نے 4 مئی کو سی جے آئی کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔