گڑگاؤں میں کئی جگہ نہیں ہوئی نمازِ جمعہ، سیکٹر53 میں پوجا کی کوشش ناکام

بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنان نے گڑگاؤں سیکٹر 53 کے وزیر آباد واقع میدان میں پوجا کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پولس انتظامیہ نے ان شرپسندوں کو ایسا کرنے سے روک دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

گڑگاؤں سیکٹر 53 کے وزیر آباد واقع میدان میں 20 اپریل کو نمازِ جمعہ کے دوران پیدا ہوا تنازعہ اس ہفتہ ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتہ یعنی 27 اپریل کو سخت سیکورٹی کے درمیان اس مقام پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی ہوئی تھی لیکن اس ہفتہ یہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ ساتھ ہی دو دیگر مقامات یعنی سکندر پور میٹرو اسٹیشن اور اتل کٹاریا چوک پر بھی نمازِ جمعہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔ ان سبھی مقامات پر کافی مدت سے مسلم برادری جمعہ کی نماز پڑھتے آرہے تھے۔ دراصل کچھ ہندو شدت پسند تنظیموں کے ذریعہ گڑگاؤں کی فضا کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے آج احتیاطی قدم کے طور پر ان تین مقامات پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ ماحول خراب کرنے کے مقصد سے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں سے منسلک کچھ افراد نے گڑگاؤں سیکٹر کے وزیر آباد 53 میں آج صبح پوجا کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن پولس انتظامیہ نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔‘‘

20 اپریل کو کچھ شر پسندوں کے ذریعہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد 25 اپریل کو مقامی تھانہ میں شکایت درج کرانے والے شہزاد خان نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’گڑگاؤں کا ماحول اس وقت اطمینان بخش ہے۔ بجرنگ دل اور وی ایچ پی سے تعلق رکھنے والے کچھ تشدد پسند افراد نے ماحول خراب کرنے کے لیے یہاں پوجا کا اعلان کیا تھا لیکن پولس نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’اس ہفتہ گڑگاؤں سیکٹر 53 میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی گئی تاکہ حالات کشیدہ نہ ہو جائیں۔ اس سلسلے میں ہفتہ اور اتوار کو محلے والوں کی میٹنگ ہونے والی ہے جو علاقے میں امن و امان کی بحالی سے متعلق تبادلہ خیال کریں گے اور ہندو مسلم سبھی مل کر شر پسندوں کی غلط حرکتوں پر قابو پانے کے لیے کوئی فیصلہ لیں گے۔‘‘

وزیر آباد میں امن کی کوششوں میں مصروف سماجی کارکن سرفراز نے’قومی آواز‘سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ علاقے میں امن قائم رہے۔ اس معاملے میں ہندو شدت پسند تنظیموں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے امن اور بھائی چارہ کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔‘‘ حقوق انسانی کارکن راکھی سہگل نے بھی اس تعلق سے مناسب قدم اٹھائے جانے کی کوششوں کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’بجرنگ دل اور ہندو واہنی سمیت تمام تنظیم پوری تیاری کے ساتھ نماز کے نام پر کشیدگی پیدا کرنے کی تیاری میں ہیں جسے مقامی امن پسند ہندو اور مسلم عوام ناکام بنا دیں گے۔‘‘

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندوتوا ذہنیت کی حامل شدت پسند تنظیموں نے گڑگاؤں کے کم و بیش 25 مقامات پر نماز بند کرائے جانے کی بات کہی تھی لیکن سول سوسائٹی نے انتظامیہ سے بات چیت کر کے صرف تین مقامات پر جمعہ کی نماز نہیں پڑھنے کا احتیاطی قدم اٹھایا۔ یہ تین مقامات سیکٹر 53 وزیر آباد، سکندر پور میٹرو اسٹیشن کے پاس والی سڑک اور اتل کٹاریا چوک ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ سڑک سے بالکل ملحق مقامات ہیں اور یہاں ہنگامہ برپا ہونے کے خدشات زیادہ ہیں اس لیے یہاں نماز نہیں پڑھے جانے کا فیصلہ لیا گیا۔ بقیہ مقامات پر پولس سیکورٹی کے درمیان مسلمانوں نے نماز کی ادائیگی کی۔

علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے جھارسا گاؤں کے کونسلر پردیپ جیلدار بھی انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ہندو گھرانوں سے بات چیت چل رہی ہے اور ان سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھر کے نوجوانوں کو ایسی تنظیموں یا افراد سے دور رکھیں جو گڑگاؤں کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور علاقے میں ہنگامہ برپا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

واضح رہے کہ 20 اپریل کو 10-8 شرپسندوں نے نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے گڑگاؤں سیکٹر 53 میں جمع مسلمانوں کو میدان سے یہ کہتے ہوئے بھگا دیا تھا کہ وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھیں یا پھر اپنے گاؤں چلے جائیں۔ اس دوران شرپسندوں نے ’جے شری رام‘، ’رادھے رادھے‘ اور ’رام راج آئے گا‘ جیسے نعرے بھی لگائے تھے۔ اس معاملے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر بری طرح وائرل بھی ہو گیا تھا اور عآپ لیڈر الکا لامبا نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس ویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تعریف کی تھی اور لکھا تھا کہ مسلمان بھائی خاموشی کے ساتھ میدان سے اٹھ کر چلے گئے جس سے فساد برپا کرنے کی شر پسندوں کی کوشش ناکام ہو گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 May 2018, 5:38 PM