صدیق کپن کو منی لانڈرنگ معاملے میں ضمانت کی عرضی پر سماعت کے لیے 29 ستمبر تک کرنا ہوگا انتظار، ہنوز جیل میں بند!

صدیق کپن کے وکیل نے کیس کی سماعت 26 ستمبر کو کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن عدالت نے کہا کہ وہ ابھی اس سماعت کے لیے تیار نہیں ہے۔

صدیق کپّن، تصویر آئی اے این ایس
صدیق کپّن، تصویر آئی اے این ایس
user

ایشلن میتھیو

لکھنؤ کی سیشن عدالت نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے رجسٹرڈ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ (پی ایم ایل اے) کیس میں صدیق کپن کی ضمانت کی درخواست پر 29 ستمبر کو سماعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کپن کے وکیل نے اس کیس کی سماعت 26 ستمبر کو کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن عدالت نے کہا کہ وہ ابھی اس سماعت کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج-1 کے ریگولر سیشن کورٹ، جسے جمعہ کو درخواست ضمانت کی سماعت کرنی تھی، جج دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سماعت ملتوی کر دی۔ کپن کے وکیل محمد دانش نے کہا کہ ’’سماعت ریگولر کورٹ کی اگلی دستیاب تاریخ تک ملتوی کر دی گئی ہے جو کہ 29 ستمبر ہے۔ ہم نے حالانکہ ہم نے پیر، 26 ستمبر کی درخواست کی تھی۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ 21 ستمبر کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے صدیق کپن کو پاپولر فرنٹ آف انڈیا/کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے ممبروں سے جوڑنے کی کوشش کرنے والی ضمانت کی درخواست پر یہ کہتے ہوئے جواب داخل کیا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ صحافی کو نئی دہلی میں اقلیتوں کے حقوق پر ایک سیمینار کے انعقاد کے لیے ایک ٹیم میں نامزد کیا گیا تھا۔ تازہ جواب میں بھی ای ڈی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چونکہ کپن پی ایف آئی کی ملکیت والے ملیالم روزنامہ تھیجس ڈیلی کے ساتھ کام کرتے تھے، یعنی وہ اس تنظیم کے ساتھ قریب سے وابستہ تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 9 ستمبر کو کپن کو دیگر معاملوں میں ضمانت دے دی تھی، لیکن وہ ابھی تک لکھنؤ جیل میں ہی ہیں کیونکہ انہیں ابھی تک ’پی ایم ایل اے‘ کیس میں راحت نہیں ملی ہے۔ کپن کو اتر پردیش پولیس نے اکتوبر 2020 میں متھرا ٹول پلازہ سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔ تب سے کپن جیل میں ہی ہیں۔ ان پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعہ پی ایم ایل اے کے علاوہ تعزیرات ہند (آئی پی سی)، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔


کپن کے ساتھ گرفتار ہونے والوں میں عتیق الرحمان (دہلی کے ریاستی جنرل سکریٹری برائے کیمپس فرنٹ آف انڈیا اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن)، مسعود احمد (طالب علم اور CFI ممبر)، اور کیب ڈرائیور محمد عالم بھی شامل تھے۔ کپن بھی سی ایف آئی کے خزانچی رہ چکے ہیں۔ بہرحال، ای ڈی نے اپنے تازہ ترین جواب میں کہا ہے کہ مسعود احمد کو پی ایف آئی کے ایک بینک اکاؤنٹس سے رقم ملی تھی اور وہ پی ایف آئی نئی دہلی کے جنرل سکریٹری محمد الیاس سے مسلسل رابطے میں تھے۔ مسعود احمد نے بتایا تھا کہ وہ کپن کو عتیق الرحمان کے ذریعے جانتا تھا، جس سے احمد کی ملاقات جامعہ ملیہ اسلامیہ کالج میں ہوئی تھی۔

ویسے ای ڈی نے گزشتہ ماہ بھی کپن کی ضمانت کی سماعت کے دوران ان کے خلاف تین ’اہم ثبوت‘ پیش کیے تھے۔ کیرالہ میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) کے سکریٹری رؤف شریف نے انھیں بینک اکاؤنٹ میں 45,000 ٹرانسفر کیے تھے، سیمی (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کا لٹریچر کیرالہ میں ان کے گھر سے ملا تھا، اور انھوں نے سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) مخالف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ علاوہ ازیں ان کے خلاف چوتھا ثبوت عدالت میں یہ پیش کیا گیا تھا کہ کپن نے پہلے پی ایف آئی کی اشاعت ’تھیجس‘ کے لیے کام کیا تھا جو 2018 میں بند ہو گیا تھا اور اب اس کا ایک پورٹل ہے۔ حالانکہ کپن اپنی گرفتاری کے وقت ایک نیوز پورٹل Azhimukham کے لیے فری لانسنگ کر رہے تھے۔ کپن کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (KUWJ) کی دہلی یونٹ میں سکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */