جے این یو تشددد: چہار جانب ہو رہی پولس کی تنقید، طلبا کی حمایت میں لگاتار آ رہے بیان، جانیں کس نے کیا کہا...

دہلی واقع جے این یو میں ہوئے تشدد نے ایک بار پھر دہلی پولس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد سرجے والا، کپل سبل، پینارائی وجین، مایاوتی سمیت کئی لیڈروں نے طلبا کی حمایت میں بیان دیا ہے

جے این یو کے باہر پولس کا سخت پہرہ
جے این یو کے باہر پولس کا سخت پہرہ
user

قومی آوازبیورو

دہلی واقع جواہر لال نہر ویونیورسٹی (جے این یو) میں اتوار کی شام ہوئے تشدد، ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کے بعد ایک بار پھر دہلی پولس کٹہرے میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ مشہور و معروف سیاسی و سماجی ہستیوں کے ذریعہ دہلی پولس اور جے این یو انتظامیہ کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے اور طلبا کی حمایت میں لگاتار بیان سامنے آ رہے ہیں۔ جے این یو میں نقاب پوش غنڈوں کی غنڈہ گردی کے بعد ملک بھر میں طلبا سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس ہنگامہ کے بعد جے این یو کے وائس چانسلر نے طلبا سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یونیورسٹی سبھی طلبا کے ذریعہ اکیڈمک سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی سہولت مہیا کرنے کے لیے کھڑا ہے۔ ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ ان کا سرمائی سیشن رجسٹریشن کے بغیر کسی رخنہ کے اختتام پزیر ہوگا۔‘‘

دوسری طرف دہلی پولس نے جے این یو تشدد معاملے میں ایک مشترکہ ایف آئی آر درج کی ہے۔ یہ پورا معاملہ کرائم برانچ کے سپرد کیا گیا ہے اور تحقیقات شروع بھی ہو چکی ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ جے این یو میں اتوار کے روز ہوئے واقعہ سے متعلق کئی شکایتیں ملیں اور ان سب کو ایک ساتھ جوڑ کر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولس نے جے این یو انتظامیہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ جانچ میں آسانی پیدا ہو سکے۔


جے این یو تشدد کے بعد کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے زخمی طلبا سے ملاقات کی۔ اس درمیان کانگریس پارٹی نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور دہلی کے کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس بھی کیا۔ اس پریس کانفرنس میں سرجے والا نے مرکز کی مودی حکومت کوپرزور طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔

رندیپ سرجے والا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جے این یو میں جو کچھ بھی ہوا وہ وائس چانسلر کی رضامندی سے ہوا۔‘‘ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’وزیر داخلہ امت شاہ کے اشارے پر دہلی پولس نے جے این یو کیمپس میں طلبا پر حملہ ہونے دیا۔ تین گھنٹے تک پولس کیمپس کے باہر کھڑی رہی تاکہ غنڈے کیمپس میں طلبا اور اساتذہ کو پیٹ سکیں۔‘‘ کانگریس ترجمان نے کہا کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں حکومت کے ذریعہ اسپانسر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حکومت طلبا اور نوجوانوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔


جے این یو میں طلبا پر ہوئے حملے کے پیش نظر کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے میڈیا میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کپل سبل نے کہا کہ ’’نقاب پوش لوگوں کو کیمپس میں کس طرح گھسنے دیا گیا؟ وائس چانسلر نے کیا کیا؟ پولس باہر کیوں کھڑی تھی؟ وزیر داخلہ کیا کر رہے تھے؟ یہ سبھی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہیں ملے ہیں۔ یہ ایک واضح سازش ہے، جانچ کی ضرورت ہے۔‘‘

کیرالہ کے وزیر پینارائی وجین نے اس سلسلے میں اپنی بات میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’جے این یو میں نازی اسٹائل میں طلبا پر حملے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس فیملی کو اب اس خونی کھیل سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔ جو طلبا کی آواز ہے وہی اس ملک کی بھی آواز ہے۔‘‘


بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی جے این یو واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے اس واقعہ کے تعلق سے کہا کہ ’’اس کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔ جے این یو میں طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی مار پیٹ شرمناک ہے۔ مرکزی حکومت کو اس واقعہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ساتھ ہی اس واقعہ کی عدالتی جانچ ہو جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘

کانگریس کے سینئر لیڈر ابھشیک منو سنگھوی نے جے این یو واقعہ پر ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے ’’بند کرو چھاتروں پر اتیاچار، جے این یو میں ہِنسا بند کرو مودی سرکار‘‘ (بند کرو طلبا پر مظالم، جے این یو میں تشدد بند کرو مودی حکومت)۔ انھوں نے اپنے ایک دیگر ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’طاقت کا نشہ عقل پہ حاوی ہے تمھاری، تم دیکھ نہ پاؤ گے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک نے جے این یو تشدد کو حیران کرنے والا بتایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ جمہوریت میں اس طرح کے تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔


طلبا کی حمایت میں دیے جا رہے ان لگاتار بیانوں کے درمیان مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے ایک انتہائی متنازعہ بیان دیا ہے جو طلبا کے ہی خلاف ہے۔ انھوں نے واقعہ کی تو مذمت کی ہی ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ ’’لیفٹ وِنگ طلبا جے این یو کو بدنام کر رہے ہیں، انھوں نے یونیورسٹی کو غنڈہ گردی کے سنٹر میں بدل دیا ہے۔‘‘ گری راج سنگھ نے اس طرح کے واقعات کے لیے سیاسی لیڈروں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

واضح رہے کہ جے این یو میں فیس اضافہ کو لے کر گزشتہ دو مہینوں سے مظاہرہ چل رہا ہے۔ اتوار کی صبح بھی طلبا اپنے مطالبات کو لے کر آواز بلند کر رہے تھے۔ اس دوران دوپہر کے بعد یونیورسٹی میں ماحول خراب ہوتا ہوا نظر آیا۔ بوقت شام نقاب پوش بدمعاشوں نے سابرمتی ہاسٹل میں گھس کر اسٹوڈنٹس پر حملہ کیا جس میں کئی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ بدمعاش تقریباً تین گھنٹے تک کیمپس میں کہرام مچاتے رہے۔ حملے میں طلبا یونین کی صدر آئشی گھوس سمیت تقریباً 3 درجن بچے زخمی ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */