جے این یو: پولیس نے تصاویر جاری کر کے لیفٹ کے طلباء کو ہی ٹھہرایا تشدد کا ذمہ دار!

پولیس نے کچھ تصاویر جاری کر کے جے این ایس یو کی صدر سمیت بائیں بازو تنظیموں کے طلباء کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا، جبکہ جے این یو ایس یو نے کہا ہے کہ پولیس اصل مجرموں کا دفاع کر رہی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: دہلی پولیس نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کیمپس میں حملے کے معاملے میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین (ایس یو) کی صدر آئیشی گھوش سمیت 10 طلبہ کی شناخت کا دعوی کرتے ہوئے ثبوت کے طور پر ان کی کچھ تصاویر جاری کر دی ہیں۔ طلباء تنظیم نے فوری طور پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پولیس پر اصل مجرموں کے دفاع کا الزام عائد کیا ہے۔

جے این یو حملے کے معاملے کی تفتیش کرنے والی دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے ڈپٹی کمشنر جوائے تِرکی نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ 10 مشتبہ افراد کی شناخت کی گئی ہے جن میں ایس یو کی صدر آئشی گھوش کے علاوہ چُن چُن کمار، پنکج مشرا، سُچیتا تالُکراج، پریا رنجن، وِکاس پٹیل اور یوگیندربھاردواج اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی سے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں نہیں لیا گیا ہے لیکن جلد ہی مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ شروع کی جائے گی۔


پولیس کے ان دعوؤں پر جے این یو کے چار طلباء یونین عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال اٹھائے۔ جے این یو ایس یو کی صدر آئشی گھوش نے پولیس پر اتوار کے حملہ آوروں کو جان بوجھ کر بچانے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد کون کر رہا تھا۔


جے این یو ایس یو نے تشدد کے بارے میں پولیس کے دعوؤں پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ جب تشدد کے دن جب جے این یو ایس یو کی صدر نے مقامی ایس ایچ او کو نقاب پوش حملہ آوروں کے ہنگامے کے بارے میں 3 بجے آگاہ کیا تھا تو پولیس کیوں نہیں پہنچی۔ انہوں نے پوچھا کہ شام کے وقت جب حملہ آور اندر گھوم رہے تھے اور طلبہ کو مار رہے تھے تو پولیس دو گھنٹے اندر آنے کی بجائے باہر کیوں کھڑی رہی۔

آج کی پریس کانفرنس میں دہلی پولیس نے اتوار کو ہونے والے تشدد کی بجائے 4 جنوری کو جے این یو کے سرور روم میں توڑ پھوڑ کے واقعے پر ہی اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور دعوی کیا کہ 4 جنوری کو چار طلبا تنظیموں ایس ایف آئی، اے آئی ایس اے، اے آئی ایس ایف اور ڈی ایس ایف کے طلباء نے حملہ کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ وہ تمام طلبہ کے رجسٹریشن کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد، نقاب پوش افراد نے اگلے ہی دن حملہ کر دیا۔

پولیس نے بتایا کہ 5 جنوری کو نقاب پوش حملہ آوروں کو معلوم تھا کہ کس کمرے میں جانا ہے اور طلباء کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ دریں اثنا، پولیس نے یہ بھی کہا کہ 5 جنوری کو احاطے میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے۔


واضح رہے کہ اتوار کی شب جے این یو میں طلبہ پر نقاب پوش حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا، جس میں جے این یو طلباء یونین کی صدر آئشی گھوش سمیت متعدد طلباء اور کچھ پروفیسر بھی بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ طلباء کا الزام ہے کہ نقاب پوش حملہ آور جنہوں نے کچھ پروفیسروں کے ساتھ جے این اے یو پر حملہ کیا تھا، وہ دائیں بازو آر ایس ایس کی طلباء تنظیم اے بی وی پی سے وابستہ تھے۔ طلباء کا الزام ہے کہ حملے کی بار بار اطلاعات کے باوجود پولیس پورے حملے کے دوران جے این یو کے گیٹ پر کھڑی رہی اور اندر داخل تب ہوئی جب حملہ آور اپنا کام کر کے نکل گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */