جیند ضمنی انتخاب: سرجے والا کو بڑے پیمانے پر مل رہی حمایت، بی جے پی کی نیند حرام

ہریانہ کے جیند میں ہونے جا رہے ضمنی انتخابات میں کانگریس کے رندیپ سرجے والا کی صورت حال مضبوط ترین نظر آرہی ہے اور یہاں سے میدان میں اترے تقریباً 20 امیداروں کی نیند اڑ گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بیپن بھاردواج

ہریانہ کے جیند میں ہونے جا رہے ضمنی انتخابات میں کانگریس کے رندیپ سرجے والا کی صورت حال مضبوط ترین نظر آ رہی ہے۔ یہاں سے 21 امیدوار میدان میں ہیں اور سرجے والا کو مل رہی حمایت کے پیش نظر تمام مخالفین میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔ کانگریس میڈیا سیل کے انچارج سرجے والا سب کی مضبوط صورت حال کے باعث سب سے زیادہ پریشانی بی جے پی کو ہو رہی ہے جس نے ڈاکٹر کشن مِڈھا کو میدان میں اتارا ہے۔

اس انتخاب میں یوں تو ’انڈین نیشنل لوک دل ‘ اور ’جن نایک جنتا پارٹی‘ کے امیدوار بھی میدان میں ہیں لیکن ساکھ بی جے پی کی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ جیند ضمنی انتخاب اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ کچھ مہینوں کے بعد ہی لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد ہریانہ اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے ہیں۔

بی جے پی کے لئے یہ ساکھ کی لڑائی ہے تو آئی این ایل ڈی اور جے جے پی کے لئے عزت کی۔ دراصل ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ کی پارٹی حال میں تقسیم ہوئی ہے۔ تنازعہ کے بعد دشینت چوٹالہ کو لوک دل سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے نئی ’جن نایک جنتا پارٹی‘ کا قیام کیا۔

اس ضمنی انتخاب میں دشینت چوٹالہ نے اپنے بھائی دگوجے چوٹالہ کو بطور آزاد امیدوار میدان میں اتارا ہے جبکہ آئی این ایل ڈی نے اُمید ریدھو کو امیدوار بنایا ہے۔ اس انتخاب میں بی ایس پی نے کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے۔

یوں تو جن نایک جنتا پارٹی حامی امیدوار کا کوئی خاص اثر نہیں ہے لیکن عام آدمی پارٹی نے بھی انہیں حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد ان کی حالت میں کچھ بہتری آئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دگوجے سنگھ چوٹالہ سے حال ہی میں دہلی کے دو ارکان اسمبلی نے ملاقات کی تھی۔

جیند کو روایتی طور پر کانگریس کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ کانگریس نے 1967 کے بعد سے یہاں سے 5 مرتبہ جیت حاصل کی ہے۔ وہیں 2009 اور 2014 میں لوک دل امیدوار کو جیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سیٹ پر بی جے پی ہمیشہ ہارتی رہی ہے۔ اس مرتبہ بی جے پی نے یہاں سے ڈاکٹر کشن مڈھا کو میدان میں اتارا ہے، جن کے والد ہری سنگھ مڈھا یہاں سے لوک دل کے رکن اسمبلی تھے اور گزشتہ سال ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

انتخابی کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 2009 کے انتخابات میں لوک دل کے ہری چند مڈھا نے 34 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔ دوسرے نمبر پر کانگریس کے مانگے رام گپتا رہے تھے جبکہ بھجن لال کی ہریانہ جن ہِت پارٹی کے برج موہن سنگلا تیسرے مقام پر رہے تھے۔

سال 2014 کے انتخاب میں لوک دل کے ہری چند مڈھا پھر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے بی جے پی کے سریندر سنگھ بروالا کو ہرایا تھا جبکہ کانگریس کے پرمود سہواگ تیسرے مقام پر رہے تھے، جبکہ بی ایس پی چوتھے مقام پر رہی تھی۔

جاٹ اکثریتی اس سیٹ پرایک لاکھ 70 ہزار سے زیادہ ووٹر ہیں، جن میں سے 1 لاکھ 5 ہزار ووٹ شہری علاقوں سے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ ان میں سے تقریباً سوا لاکھ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔

اس سیٹ پر جاٹ ووٹروں کی تعداد 45000 اور برہمنوں کی تعداد تقریباً 15000 ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 5 ہزار کے قریب فلوٹنگ ووٹر (کسی بھی طرف چلے جانے والے) یہاں کے امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

اس سیٹ کو بی جے پی نے اپنی ساکھ کا سوال بنا لیا ہے لہذا وزیر اعلی منوہر لال کھٹر لگاتار جیند میں تشہیر کر رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی امیدوار ڈاکٹر مڈھا کو مقامی کارکنان کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کارکنان کی ناراضگی اس لئے ہے کہ مقامی اور پرانے رہنماؤں کو نظر انداز کر کے بی جے پی نے ایک ایسے باہری امیدوار کو میدان میں اتار دیا ہے جو حال میں پارٹی میں شامل ہوا ہے۔

ادھر کانگریس کے امیدوار رندیپ سرجے والا کی حالت کافی مضبوط ہے کیونکہ کانگریس کے تمام رہنما یکجا ہو کر ان کے حق میں تشہیر کر رہے ہیں۔ اس درمیان کلایت سے آزاد امیدوار جے پرکاش نے بھی سرجے والا کو بلا شرط حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جے پرکاش کا جیند اسمبلی حلقہ انتخاب میں کافی اثر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔