جھارکھنڈ کے وزیر اعلی نے مجھ پر کروایا حملہ: سوامی اگنی ویش

ایمس کے ٹراما سینٹر سے ڈسچارج ہونے کے بعد اگنی ویش نے بتایا کہ انہوں نے 15 دن پہلے جھارکھنڈ کے وزیر اعلی رگھوبرداس کو خط لکھا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ وہ قبائلیوں کے مسائل کو اٹھانے والے ہیں۔

تصویر قومی آواز/ویپن
تصویر قومی آواز/ویپن
user

دھیریا ماہیشوری

سماجی کارکن سوامی اگنی ویش نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلی رگھوبر داس پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے منصوبہ بند طریقے سے بھیڑ کے ذریعے ان پر حملہ کروایا گیا۔ اگنی ویش نے کہا کہ پاكُر ضلع میں اپنی ریلی سے 15 دن پہلے انہوں نے سی ایم کو خط لکھا تھا اور وہاں بی جے پی یوا مورچہ کے کارکنان نے ان پر حملہ کیا گیا۔

جمعرات کو ایمس کے ٹراما سینٹر سے ڈسچارج ہونے کے بعد اگنی ویش نے ایک خاص بات چیت میں ’قومی آواز‘ کو بتایا،’’میں نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلی رگھوبرداس کو خط لکھا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ میں قبائلیوں کے مسائل کو اٹھانے والا ہوں، میں نے ان سے ملنے کا وقت بھی مانگا تھا تاکہ میں ان کے ساتھ ان مسائل پربات کر سکوں‘‘۔

انہوں نے کہا، ’’ایسا میں نے ریلی کے منعقد ہونے سے 15 دن پہلے کیا تھا ، جہاں مجھ پر حملہ کیا گیا۔ 16 جولائی کو رانچی میں سی ایم کے دفتر کے باہر میں گھنٹوں بیٹھا رہا لیکن مجھے ان سے ملنے کا وقت نہیں ملا، اس کے بعد رات میں بذریعہ ٹرین پاكُر جانے کے لئے روانہ ہو گیا ‘‘۔

اگنی ویش نے کہا کہ بی جے پی کی ریاستی حکومت کی حکمرانی میں قبائلیوں کی حالت زار پر بات چیت کرنے کے لئے ریلی میں تقریبًا 1 لاکھ قبائلی جمع ہوئے تھے ۔

انہوں نے بتایا،’’جھارکھنڈ حکومت نے کارپوریٹ کے ساتھ 210 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ، جس کے تحت 3 لاکھ 50 ہزار ایکڑ قبائلیوں کی زمین ان بڑے تاجروں کو بغیر قبائلیوں کی مرضی کے دے دی جائے گی۔

کولکتہ کے سینٹ جیویر کالج میں استاد رہ چکے اگنی ویش نے قبائلی معاشرے کے مسائل کے لئے جدوجہد کرنے کے مقصد سے سالوں پہلے اپنی نوکری چھوڑ دی تھی، انہوں نے کہا ’’میں لاکھوں مقامی قبائلیوں کی شرکت والی اس ریلی سے خطاب کرنے والا تھا اور قبائلیوں کے خلاف ہو رہی ناانصافی کے مسئلے کو اٹھانے والا تھا، ان لوگوں نے دہلی سے مجھے مدعو کیا تھا اور ریلی کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ‘‘۔

انہوں نے کہا ’’1996 میں پارلیمنٹ کی طرف سے منظور پنچایت (شیڈول کاسٹ علاقوں کی توسیع) ایکٹ 1996 کو لاگو کیا جانا اب بھی باقی ہے، جبکہ اس کو پاس ہوئے 22 سال ہو چکے ہیں، یہ قبائلیوں کے ساتھ ایک گندا مذاق ہے، میں وہاں یہ بتانے کے لئے گیا تھا کہ ہندوستانی آئین نے قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہت مخصوص قوانین بنائے ہیں‘‘۔

اگنی ویش نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ان پر حملہ کرنے والے حملے کے وقت جے شری رام کا نعرہ لگا رہے تھے، انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ لوگوں کو تشدد کے لئے اکسانے کے مقصد سے بی جے پی ہندو دیوتاؤں کا استعمال کر کے ان کی وراثت کو تہس نہس کر رہی ہے۔کیونکہ رام نے کبھی تشدد کے لئے کبھی تبلیغ نہیں کی ، ان کی وراثت پورے انسانیت کو منظم کرنے کی ہے، بی جے پی اپنے سیاسی مقصد کے لئے رام اور ویدوں کی وراثت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’’وہ لوگوں کو اکسانے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ تے رہتے ہیں ، چاہے وہ بیف کا مسئلہ ہو، بچہ چوری کا مسئلہ ہو یا کوئی اور، آج یہی سب ہو رہا ہے‘‘۔

اگنی ویش نے ان افواہوں کو غلط بتایا کہ انہوں نےبیف کھانے کو لے کر کوئی اشتعال انگیز تبصرہ کیا تھا جیسا کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’میں ایک شاکاہاری ( سبزی کھانےوالا) ہوں، گزشتہ ماہ مجھے سپریم کورٹ کے میرے ایک وکیل دوست نے عید پر مدعو کیا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں تبھی وہاں آؤں گا جب وہاں کوئی گوشت سے بنی کوئی ڈش نہیں ہوگی۔ لہذا انہوں نے اپنے دعوت نامہ میں لکھا کہ عید کی تقریب مکمل طور شاکاہاری ہوگی ۔ میں ہر طرح کے گوشت کے خلاف ہوں، میں گوشت کھانے کی حمایت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔

اگنی ویش نے مزید کہا ’’لیکن یہ سارے حقائق ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے، وہ وہی کریں گے جو وہ کرنا چاہتے ہیں، دیکھ لیجئے، ہریانہ کے وزیر انل وج نے سوشل میڈیا پر کیا لکھا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ جو بھی مودی کے خلاف جائے گا اس کی زبان کھینچ لی جائے گی اور ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */