جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ چمپئی سورین نے 47 ووٹ کے ساتھ اسمبلی میں اکثریت ثابت کی، بی جے پی پر کیا حملہ

جھارکھنڈ اسمبلی میں آج جب اکثریت ثابت کرنے کے لیے ووٹنگ کی گئی تو چمپئی سورین کی حکومت میں 47 ووٹ پڑے، جبکہ خلاف میں محض 29 ووٹ پڑے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ اسمبلی میں آج چمپئی سورین نے اپنی اکثریت ثابت کر دی۔ ہیمنت سورین کے استعفیٰ کے بعد چمپئی سورین کو وزیر اعلیٰ بننے کی دعوت ملنے میں ہوئی تاخیر پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور پھر اس کے بعد سبھی کو انتظار تھا 5 فروری کا جب وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔ 5 فروری یعنی آج چمپئی سورین کو اکثریت ثابت کرنے میں کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی اور 81 نشستوں والی اسمبلی میں ضروری 41 ووٹ کی جگہ انھوں نے 47 ووٹ حاصل کر لیے۔ ان کے خلاف محض 29 ووٹ پڑے۔

قابل ذکر ہے کہ چمپئی سورین نے 2 فروری کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لیا تھا اور اکثریت ثابت کرنے کے لیے 5 فروری کی تاریخ طے ہوئی تھی۔ انھوں نے آج اعتماد کا ووٹ پیش کیا اور اس کے بعد اس پر بحث شروع ہوئی۔ بحث کے شروع میں چمپئی نے بی جے پی کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن ہم نے انھیں آج ناکام کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی ہیمنت سورین کو جھوٹے معاملوں میں پھنسانے کے لیے مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔ چمپئی سورین نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ہیمنت سورین نے جو منصوبے شروع کیے ہیں، وہ اس کو آگے بڑھائیں گے۔


اعتماد کے ووٹ پر بحث کے دوران بی جے پی اراکین اسمبلی کی طرف سے ہیمنت سورین اور چمپئی سورین پر حملے کیے گئے۔ بی جے پی لیڈر امر کمار باؤری نے کہا کہ ’’چمپئی کو مجبوری میں آج موقع ملا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’ہیمنت سورین قئابلی لیڈر ہو سکتے ہیں، قبائلیوں کے لیڈر نہیں ہو سکتے۔ اپنے ہی اراکین اسمبلی پر انھیں اعتماد نہیں ہے۔‘‘

اس سے قبل اسمبلی میں گورنر سی پی رادھاکرشنن نے اپنی تقریر شروع کی۔ اس دوران برسراقتدار طبقہ کے اراکین اسمبلی ان کی ہوٹنگ کرتے ہوئے دکھائی دیے اور ایوان کے اندر ’مرکزی حکومت ہائے ہائے‘ کے نعرے بلند کرتے رہے۔ گورنر کی تقریر کے دوران برسراقتدار طبقہ کے سبھی اراکین اسمبلی نے کھڑے ہو کر اپنا احتجاج بھی درج کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔