جھارکھنڈ: بی جے پی وزیر کو ’عوام سے نکاح‘ کرنا مہنگا پڑا

پارٹی لیڈران کی بات نہ سنے جانے سے مایوس وزیر زراعت رندھیر سنگھ کے بیان کے بعد بی جے پی نے ان سے جواب طلب کیا ہے اور پوچھا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی نے جھارکھنڈ کے وزیر زراعت رندھیر سنگھ کو نوٹس جاری کر کے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پارٹی میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر لکشمن گلوا کی ہدایت پر یہ نوٹس جاری کی گئی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ انھوں نے پارٹی کے خلاف آواز کیوں اٹھائی۔ دراصل جے وی ایم چھوڑی کر بی جے پی میں شامل ہوئے رندھیر سنگھ نے 10 جنوری کو سارٹھ اسمبلی میں پارٹی کارکنان کے لیے منعقد تقریب میں انھوں نے کہا تھا کہ ”بی جے پی کو تیل نہیں لگائیں گے بلکہ بی جے پی ہم لوگوں کو تیل لگائے گی۔ ہمارا نکاح عوام کے ساتھ ہوا ہے، بی جے پی کے ساتھ نہیں۔“ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”یہ سبھی لوگ ہمارے ہیں، ہمارے لیے کام کر رہے ہیں، بی جے پی کے لیے نہیں۔ ہم نے مستحکم حکومت دی ہے لیکن ہماری ہی بات نہیں سنی جا رہی ہے۔“

رندھیر سنگھ کی ناراضگی پارٹی کے ان بڑے لیڈران کے خلاف تھی جو وزراءکی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور عوام کی فلاح سے متعلق منصوبوں پر عمل نہیں ہو پاتا۔ ان کے اس بیان کو حکومت اور پارٹی کے خلاف نازیبا بیان تصور کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا گیا ہے اور پوچھا گیا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ پارٹی کے ایک دیگر لیڈر جے پرکاش ورما کے خلاف بھی نوٹس جاری کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے بھی پارٹی پر کسی کی بات نہ سنے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

گانڈے سے پارٹی کے ممبر اسمبلی جے پرکاش ورما نے 6 جنوری کو نگنوا میں کشواہا سماج کی ایک تقریب میں کھل کر حکومت کی تنقید کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ”پارٹی میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی بات بھی نہیں سنی جا رہی ہے۔ ریاست میں نوکرشاہ حاوی ہے۔ وزیر اعلیٰ اپنی ہی پارٹی کے ممبران اپرلیمنٹ، وزراءاور ممبران اسمبلی کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ کوئی ان سے خوش نہیں ہے۔“ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ایوان کے اندر بھی اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے سڑک پر تحریک چلانے کا فیصلہ لیا ہے۔“

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی حکومتوں میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی باتوں کو نظر انداز کرنے کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں دو چار بڑے لیڈران ہی سبھی فیصلے لیتے ہیں اور وہ بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ پارٹی کو یہ کبھی برداشت نہیں کہ کوئی اس کی برائیوں یا خامیوں کو منظر عام پر لائے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی یا ریاستی سطح پر کوئی بھی لیڈر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر پاتا، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔