کٹھوعہ معاملے میں عصمت دری نہ ہونے کی میڈیا رپورٹ غلط: جموں و کشمیر پولس

جموں و کشمیر پولس نے کٹھوعہ اجتماعی عصمت دری کیس میں پریس ریلیز جاری کر کے میڈیا کی ان خبروں کو غلط ٹھہرایا ہے جس میں عصمت دری کی تصدیق نہ ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کٹھوعہ عصمت دری کیس میں جموں و کشمیر پولس نے پریس ریلیز جاری کر کے ’دینک جاگرن‘ کی اس رپورٹ کو سرے سے خارج کر دیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ بچی کے ساتھ زناکاری نہیں ہوئی تھی۔ جموں و کشمیر پولس کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’گزشتہ کچھ دنوں میں پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی خبریں شیئر کی جا رہی ہیں کہ بچی کے ساتھ عصمت دری نہیں ہوئی، جو غلط ہے۔ ماہر ڈاکٹروں نے جانچ میں یہ اخذ کیا ہے کہ بچی کے ساتھ عصمت دری ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں کی رائے کے بعد اس کیس میں دفعہ 376 ڈی کو جوڑا گیا ہے۔‘‘

کٹھوعہ عصمت دری معاملے میں دہلی کی فورنسک لیب (ایف ایس ایل) نے ثبوتوں کی جانچ کی ہے اور ان کو سچ بتایا ہے۔ ایف ایس ایل کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ مندر میں ملے خون کے دھبے متاثرہ بچی کے ہی ہیں۔ ایف ایس ایل رپورٹ سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ 8 سال کی بچی سے مندر کے اندر ہی عصمت دری ہوئی تھی۔

اس سے پہلے ’دینک جاگرن‘ نے اپنی خبر میں ڈاکٹروں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچی کے ساتھ عصمت دری نہیں ہوئی تھی۔ اس ہندی اخبار نے اپنی خبر میں لکھا تھا کہ ’’کٹھوعہ میں 8 سال کی بچی سے اجتماعی عصمت دری اور قتل کے فرد جرم میں جو ثبوت اور دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو آپس میں میل نہیں کھاتیں۔ کٹھوعہ ضلع اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ایس آئی ٹی کو جو بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھیجی ہے وہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ حیران کرنے والا معاملہ یہ ہے کہ دونوں رپورٹ میں کہیں پر بھی بچی کے ساتھ عصمت دری کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے۔‘‘ دینک جاگرن کی اسی رپورٹ کو جموں و کشمیر پولس نے خارج کر دیا ہے۔

کٹھوعہ عصمت دری معاملے پر غلط رپورٹ شائع کرنے کے بعد پٹنہ میں منعقد ’دینک جاگرن‘ کے لٹریری فیسٹیول ’بہار سموادی‘ کا کئی ادیبوں نے بائیکاٹ کر دیا ہے۔ جن ادیبوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے ان میں ارون کمل، آلوک دھنوا اور نویدیتا جھا کے نام شامل ہیں۔

کٹھوعہ معاملے میں عصمت دری نہ ہونے کی میڈیا رپورٹ غلط: جموں و کشمیر پولس

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔