پلوامہ دھماکہ: اپنی نوعیت کے سب سے بڑے حملہ کو ایک سال مکمل

یہ وادی میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خود کش دھماکہ تھا جس کو پلوامہ کے کاکہ پورہ سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ عادل ڈار نے انجام دیا اور جس کے نتیجے میں سی آر پی ایف کے زائد از 40 اہلکار از جان ہوگئے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ علاقہ میں سال گزشتہ کی 14 فروری کی صبح لوگ اپنے اپنے کاموں کے ساتھ مصروف و منہمک تھے اور آفتاب نصف النہار کی طرف گامزن تھا کہ ایک زوردار دھماکے سے پورا علاقہ دہل اٹھا اور دھماکے کی صدائے بازگشت وادی کے یمین ویسار میں سنائی دی۔ یہ وادی میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خود کش دھماکہ تھا جس کو پلوامہ کے کاکہ پورہ سے تعلق رکھنے والے انیس سالہ عادل ڈار عرف وقاص نے انجام دیا اور جس کے نتیجے میں سی آر پی ایف کے زائد از چالیس اہلکار از جان ہوگئے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پلوامہ خود کش دھماکے کا ایک برس مکمل ہوا لیکن جہاں ایک طرف حملے کے ملوثین کے بارے میں متعلقہ ایجنسیوں کی طرف سے تحقیقات ابھی تشنہ تکمیل ہی ہیں وہیں اس دھماکے کے بعد وادی کشمیر ہی نہیں بلکہ جموں کشمیر کے سیاسی و جغرافیائی صورتحال جس تغیر وتبدل سے دوچار ہوئی وہ اپنی مثال آپ بھی ہے اور اس کے جھٹکے مسلسل محسوس بھی کئے جارہے ہیں۔
مبصرین کا سوال ہے کہ جس دھماکے کے نتیجے میں دو ایٹمی ممالک جنگ کے دہانے پر آگئے اس میں ایک برس بیت جانے کے بعد بھی تحقیقات نا مکمل کیوں ہیں۔


سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پلوامہ حملوں کا ایک برس مکمل ہوا لیکن این آئی اے ملوثین کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

ایک سینئر صحافی نے پلوامہ حملے کے ایک سال مکمل ہونے پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ این آئی اے کی طرف سے تحقیقات ہنوز جاری ہیں، لیتہ پورہ میں سری نگر – جموں قومی شاہراہ پر 14 فروری 2019 کو ہوئے کار بم دھماکہ جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں بہت بڑا نازک مرحلہ ثابت ہوا ہے کیونکہ اس نے دلی کو سال 1999 سے موجود مسابقتی علاحدگی پسندی کو ہٹانے پر مجبور کیا۔ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ پلوامہ حملہ ہی دراصل کشمیر میں رونما ہورہی تبدیلیوں کا باعث ہے۔

پلوامہ حملہ وقوع پذیر ہونے کے بعد دو روایتی حریف اور ایٹمی ممالک ہندوستان اور پاکستان ایک اور جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ہندوستان نے انتقامی کارروائی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 26 فروری کو پاکستان کے اندر گھس کر بالاکوٹ پر حملہ کیا اور پاکستان نے بھی اگلے ہی روز جموں کشمیر میں داخل ہوکر جوابی کارروائی عمل میں لائی اس دوران پاکستان نے ہندوستان کا ایک جنگی طیارہ گرا کر ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا تاہم بعد ازاں پاکستان نے ابھی نندن کو بغیر کسی شرط کے اپنے ملک کے حوالے کیا۔


طرفین کے درمیان تنائو کے بیچ ہندوستان کے طیارے کو غلط فہمی کی بنیاد پر اپنے ہی ساتھیوں نے گرایا جو وسطی ضلع بڈگام کے گریند کلان علاقے میں زمین بوس ہوا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار چھ افسروں کے علاوہ گریند کلان سے تعلق رکھنے والا 25 سالہ کفایت حسین گنائی ولد محمد رمضان گنائی نامی ایک عام شہری جان بحق ہوا۔

سال 1971 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ دونوں ممالک کے جنگی طیاروں نے ایک دوسرے کی سرحدوں کو پار کرکے کارروائیاں کیں۔
پلوامہ حملے کے بعد جہاں سری نگر – جموں قومی شاہراہ پر سیکورٹی فورسز کانوائے کی آمد ورفت کے لئے دو دن مخصوص رکھے گئے وہیں ملک کی دوسری ریاستوں میں مقیم کشمیریوں، خواہ وہ طلبا تھے یا تجار، مزدور تھے یا ملازمین، کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی طلبا اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر واپس لوٹے تھے۔

جموں کشمیر کے سیاسی حالات پر دقیق نظر رکھنے والے ماہرین، جنہوں نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کی، کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں مرکزی حکومت کے تاریخی فیصلہ جات جن میں آئینی دفعات 370 و 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنا شامل ہے، کا اصل محرک پلوامہ حملہ ہی ہے۔

وادی میں عوام وخواص کا اس بات پر یقین بھی ہے اور اتفاق بھی کہ اس حملے کے بعد کشمیریوں کے خلاف جہاں بیرون وادی بھی ماحول زہر آلود بن گیا اور کشمیریوں کے بارے میں ہر جگہ فضا مسموم بن گئی وہیں وادی کے اندر بھی لوگوں کے لئے طرح طرح کے مشکلات پیدا کئے جارہے ہیں۔


پلوامہ حملے کے بعد جماعت اسلامی کے لیڈروں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا گیا اور درجنوں لیڈروں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا اور ان کے اثاثوں اور جائیداد کو سر بمہر کیا گیا علاوہ ازیں چند ہفتے بعد جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو بھی کاالعدم قرار دیا گیا اور فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک دلی کی تہاڑ جیل میں ہنوز مقید ہیں۔

پلوامہ حملے کا ہی نتیجہ ہے کہ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کئے گئے ایک حکمنامے کے مطابق سلام آباد (اوڑی) اور چکن دا باغ (پونچھ) کرسنگ پوائنٹس پر ہند – پاک دو طرفہ تجارت تاحکم ثانی معطل کیا گیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ تجارت غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ تب سے لیکر اب تک سری نگر – مظفر آباد اور پوچھ – راولا کوٹ بس سروسز بھی معطل ہی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پلوامہ حملے کی جہاں مین اسٹریم جماعتوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی وہیں مزاحمتی قائدین نے بھی اس حملے میں جاں بحق ہوئے سی آر پی ایف اہلکاروں کے کنبوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔