جموں و کشمیر آج پنڈت نہرو کی وجہ سے ہندوستان کا حصہ ہے، منیش تیواری کا امت شاہ کو جواب

منیش تیواری نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام ریاست میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ وفاقی ڈھانچے پر بہت بڑا حملہ ہے۔

ویڈیو گریب
ویڈیو گریب
user

قومی آوازبیورو

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل کے روز لوک سبھا میں جموں و کشمیر ریاست کی از سر نو تشکیل پر جموں و کشمیر اور لداخ کو دو علاحدہ مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں تقسیم کرنے اور آرٹیکل 370 کی زیادہ تر شقوں کو ختم کرنے سے متعلق قرارداد پیش کی۔

کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے آرٹیکل 370 پر بات کرتے ہوئے مودی حکومت پر زبردست پلٹ وار کیا ہے۔ یکے بعد دیگرے متعدد سوال اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف کو گھیرا اور امت شاہ کے ہر ایک بیان کو معقول جواب دیا۔


منیش تیواری نے کہا کہ آج ضروری ہے کہ تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ 1846 میں انگریزوں اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کے ساتھ جنگ ہوئی اور لاہور معاہدہ عمل میں آیا۔ اس کے بعد امرتسر معاہدہ ہوا تھا، جس میں دریائے بیاس اور دریائے سندھ کے علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے 75 لاکھ روپے میں انگریزوں کو دے دیئے۔

سال 1866 سے لے کر 1947 تک جموں و کشمیر ریاست چلتی رہی لیکن بٹوارے کے بعد ہندوستان اور پاکستان بنے اور دیگر 562 ریاستیں بھی اس وقت موجود تھیں، جن میں سے کچھ ہندوستان میں شامل ہوئیں جبکہ کچھ پاکستان میں۔ لیکن لتین ریاستیں جموں و کشمیر، حیدرآباد اور جوناگڑھ کو لے کر تنازعہ پیدا ہو گیا۔


جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ ہندوستان میں الحاق کو لے کر پس و پیش میں تھے۔ لیکن اسی درمیان پاکستان نے حملہ کر دیا۔ اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ کے سامنے دو متبادل تھے یا تو وہ پاکستان کے سامنے سپردگی کرتے ہوئے ریاست کو پاکستان میں ملا دیتے یا پھر وہ ہندوستان کے ساتھ ریاست کا الحاق کرتے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد مانگی اور 27 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔ اس کے بعد ہندوستان کی فوج پاکستانیوں کو کھدیڑنے کے لئے میدان میں اتری۔ یہ جنگ دو سال جاری رہی۔

اس لئے جموں و کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بنانے والے کوئی تھے تو وہ پنڈت جواہر لال نہرو تھے۔ لیکن ہندوستان نے الحاق کے وقت کچھ وعدے کیے تھے۔ 31 اکتوبر 1951 اور 17 نومبر 1956 کے درمیان جموں و کشمیر کی اسمبلی نے ریاست کے آئین کو منظوری دی۔


کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے کہا کہ جموں و کشمیر کے الحاق میں آرٹیکل 370 اور آئین شامل ہے۔ تاریخ کو آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 370 کا مطلب ہے کہ ریاست کے لوگوں سے صلاح مشورہ کیا جائے لیکن آج تو ہاں اسمبلی موجود نہیں ہے۔

آئین یہ نہیں کہتا کہ پارلیمان کسی بھی ریاست کی حدود طے کرنے کا فیصلہ کرے، لہذا جموں و کشمیر کی از سر نو تشکیل کا فیصلہ شق 3 کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر آئینی اجلاس طلب کیے آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب آرٹیکل 370 کو ختم کر رہے ہیں تو آج شمال مشرقی کی ریاستوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے، کل آپ آسام، تریپورہ اور ناگالینڈ کے حقوق آرٹیکل 371 کو ختم کر کے چھین لیں گے۔


انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ایک علاحدہ آئین ہے جو 26 جنوری 1957 کو لاگو ہوا تھا تو اس کا کیا ہوگا؟ کیا حکومت آئین کو منسوخ کرنے کے لئے علاحدہ سے بل لے کر آئے گی؟

منیش تیواری نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام ریاست میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ وفاقی ڈھانچے پر بہت بڑا حملہ ہے۔ اگر آج جونا گڑھ، حیدر آباد اور جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ ہیں تو یہ پنڈت جواہر لال نہرو کی وجہ سے ہیں۔


دریں اثنا، امت شاہ نے کہا کہ منیش تیواری نے نہیں بتایا کہ وہ آرٹیکل 370 کے حق میں ہیں یا خلاف۔ اس پر تیواری نے کہا کہ اگر آپ بغیر آئینی اجلاس طلب کیے کوئی شق ہٹائیں گے تو یہ بالکل غلط ہے، امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

واضح رہے کہ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھیر اور ڈی ایم کے کے ٹی آر بالو نے بھی قرارداد پیش کیے جانے کی مخالفت کی۔ بالو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’یہ غیر اعلان شدہ ایمرجنسی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Aug 2019, 3:10 PM