لو جہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی پر جمعیۃ علماء ہند بھی ہوگی مداخلت کار، سپریم کورٹ کی منظوری

سپریم کورٹ نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اسے جمعیۃ کی کامیابی قرار دیا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اسے جمعیۃ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین مخالف قانون کے خلاف ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔ یہ بات جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز میں کہی گئی ہے۔ قبل ازیں کی سماعت پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔

سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پر آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے پوچھا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کا مفاد کیا ہے؟ اور وہ کیوں مداخلت کار بننا چاہتے ہیں جس پر اعجاز مقبول نے انہیں بتایا کہ جمعیۃعلماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا تحفظ اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور ہم اس معاملے میں عدالت کا تعاون کرنا چاہتے ہیں۔


انہوں نے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے کو بتایا کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنے کے لئے داخل پٹیشن میں وہ بطور مداخلت کار بننا چاہتے ہیں تاکہ عدالت میں اس تعلق سے اپنا موقف پیش کرسکے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ سیتا پور لو جہاد معاملے میں پولس نے تین خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن کے مقدمہ کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کر رہی ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے دلائل کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا۔

اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم نے سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن کو ان کی پٹیشن میں ترمیم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔ متذکرہ تنظیم نے پہلے اتر پردیش اور اتر اکھنڈ ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کیا تھا لیکن آج انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش ریاستوں نے بھی اسی طرز پر قانون بنایا ہے لہذا وہ ان چاروں ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کی عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔


واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے مداخلت کار کی پٹیشن داخل کی تھی جس میں لکھا ہے کہ ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اتر پردیش حکومت نے منظوری دے دی ہے جبکہ اتراکھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلجن نامی قانون کو منظوری دی ہے ان قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔

عرضی میں مزید لکھا گیا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہیے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کر دینا چاہیے۔ عرضی میں لکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے خودا علان کیا ہے کہ وہ لو جہاد کو روکنے کے لئے غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 بنایا گیا ہے۔


جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے لوجہاد قانون پر سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی عرضی قبول کیے جانے کو جمعیۃ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین مخالف قانون کے خلاف ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں اس طرح کے غیر آئینی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی شناخت گنگا-جمنا تہذیب کے طور پر ہے جہاں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے کہ وہ کس مذہب پر چلنا چاہتا ہے اور کس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

انہوں کہا کہ اس قانون کا مقصد ہندو-مسلمان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنا اور سماج کو تقسیم کرنا ہے۔ ہم نے سماج میں خیرسگالی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی انتھک کوشش کی ہے اور قدرتی آفات ہو یا کوئی حادثہ، ہم نے مذہب سے اوپر اٹھ کر لوگوں کی مدد کی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ نے ملک کو متحد رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کے لئے لڑائی لڑی ہے اور لوجہاد کا قانون ملک کو توڑنے والا ہے اور ہم ملک کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔