جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس:مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں پر ہوئی زیادتیوں پر شرمندگی کا اظہار

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ  آدم وہ پہلے آدمی تھے جو آسمان سے آئے ۔ میں فرقہ واریت کے خلاف رہا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ جو فرقہ پرست ہے وہ ملک دشمن ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ یو این آئی</p></div>

تصویر بشکریہ یو این آئی

user

یو این آئی

قوم کے نام جاری ایک پیغام میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا ہے کہ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پورے ملک کے لیے نقصان عظیم تصور کرتی ہے جو ہماری دیرینہ وراثت سے میل نہیں کھاتی۔ یہ پیغام آج جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے 34ویں اجلاس عام کے اختتام کے بعد پر پڑھ کر سنایا جہاں سبھی مذاہب کے رہنما موجود تھے۔

جمعیۃ کی جاری ریلیز کے مطابق اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے با ضابطہ عہدنامہ پیش کیا، جس کی لفظ بہ لفظ دوہرا کر پورے مجمع نے کھڑے ہو کر تائید کی۔اس میں لوگوں نے عہد لیا کہ”وہ مذہبی رہنماؤں اور مقد س کتابوں کا کبھی اپمان نہیں کریں گے، ہنسا اور نفرت سے سماج کو آزاد کریں گے اوردیش کی رکشا، سرکشا، مان سمان او راکھنڈتا کے لیے پریاس کریں گے“۔


قوم کے نام جاری پیغام میں مزید کہا گیا کہ مختلف مذاہب کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رشتے ہمارے معاشرے کی قابل فخر اور پائیدار خصوصیات ہیں۔ان رشتوں میں دراڑ پیدا کرنا قومی جرم ہے۔تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد کو چاہیے کہ متحد ہوکر شدت پسند اور تقسیم کرنے والی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اورملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔

پیغام میں بالخصوص نوجوانوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ ہمارے وطن کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے،انھیں نہ تو مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی صبر وہوش کا دامن چھوڑنا چاہیے۔ جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسند ی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں وہ نہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہمارے تعاون اور حمایت کی حق دار ہیں۔ہندوستان، تنوعات اور تکثیری معاشرے کا حامل خوبصورت ملک ہے،اس کی خصوصیات میں سے بڑی خصوصیت تمام افکار و اعمال اور مراسم کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے اور نظریے پر چلنے کی آزادی ہے، اسے بچانے کے لیے گاندھی جی وغیرہ نے ان تھک کوششیں کی ہیں۔اس کے مدمقابل کبھی اسلام، کبھی ہندو تو اور کبھی عیسائیت کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارا اختلاف نظریے پر مبنی ہے۔ ہماری نظر میں بھارت کے سبھی مذہبوں کے ماننے والے برابر کے شہری ہیں۔ آرایس ایس کے سر سنگھ چالک کے حالیہ ایسے بیانات کا جن سے باہمی میل جول اور قومی یک جہتی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہم استقبال کرتے ہیں۔


پیغام میں عدالتوں کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصے سے یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ عدالتیں ریاست کے دباؤ میں کام کررہی ہیں، یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ عدالت آزاد نہیں تو ملک بھی آزاد نہیں۔پیغام میں بالخصوص ملک میں جاری پسماندہ مسلم کے بحث پر کہا گیا کہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات اور نسلی عدم تفریق پر مبنی ہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں پسماندہ برادریو ں کاوجود زمینی حقیقت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پسماندہ برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک مذہبی، اخلاقی او ر انسانی نقطہ نظر سے قابل مذ مت ہے۔اجلاس عام کے موقع پر ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ جو زیادتیاں ذات پات کے نام پر ہوئی ہیں، ان پر ہمیں شرمندگی ہے اور ان کو دور کرنے کا ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں معاشی، سماجی،تعلیمی ہر زاویے سے مساوات قائم کرنے کی ہر ممکن جد وجہد کریں گے۔

پیغام میں کہا گیا ہے کہ معاشی ابتری، مہنگا ئی اور بیروزگاری ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔غریبی اور بے روزگای کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے ہماری ترقی کے تمام دعوے جھوٹے اورکھوکھلے ہیں۔عورتوں کے حقوق کو لے کر پیغام دیا گیا کہ ہم مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کے لیے اسلامی شریعت کے مقرر کردہ کوڈ کو عملی طورپر نافذ کریں۔میراث کی تقسیم میں عورتوں کو محروم رکھنا، طلاق دینے اور نان ونفقہ کے سلسلے میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی اور عام طور پر معاشرے میں ان کے ساتھ ناانصافی کے خلاف خود مسلمانوں کو پورے ملک میں تحریک چلانے اور ضروری اصلاحات کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے پرسنل لا میں مداخلت کی گنجائش نہ رہے۔


اس پیغام سے قبل ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ مذاہب کے قومی رہ نماؤں نے خطاب کیا۔سوامی چدانند سرسوتی مہاراج، صدر پرمارتھ نکیتن رشی کیشنے مسائل کو مشترکہ طور سے حل کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ دو باتیں ہیں، ایک یہ ہے کہ ہم پیار سے جئیں اور دوسرا ہے کہ ہم لڑ کر جئیں، لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ لڑ کر ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔

قبل ازیں امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ نے کہا کہ 1400 سال سے ملک کے ہر گاؤں میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اللہ نے آخری نبی کو سرزمین عرب پر بھیجا، اسی طرح سرزمین ہند پر پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کا نزول ہوا۔ آدم وہ پہلے آدمی تھے جو آسمان سے آئے۔ انھوں نے کہا کہ میں فرقہ واریت کے خلاف رہا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ جو فرقہ پرست ہے وہ ملک دشمن ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گھر، دکان، بازار، کھیت جہاں کہیں بھی ہوں محبت کا پیغام پھیلائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کو نفرت کے دور سے نکالے۔


دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے عوام سے اپیل کی کہ اجلاس کی تمام تجاویز کو پورے ملک میں پھیلائیں اور انھیں عملی جامہ پہنائیں۔انھوں نے کہا کہ جتنے کام کیے جارہے ہیں یہ سب تدابیر ہیں، تدابیر میں جان ڈالنے کے لیے ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے اور معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے۔مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی صدر جمعیت مرکزی اہل حدیث ہند نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا ملک آج جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملت کے دانشوران سر جوڑ کر اکٹھے ہوں اور ملک و ملت اور انسانیت کو درپیش مسائل سے متعلق خون جگر جلا کر اپنے اسلاف کے کارناموں کو سامنے رکھ کر حقیقی اقدام کریں۔

دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ ملک کی جو صورت حال ہے وہ بے حد تشویش ناک ہے، اس وقت جس بیدار معزی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند نے قوم کو رہ نمائی کا کام کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے،۔ نائب امیر الہند مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے تلقین کی کہ مسلمانوں کو موجودہ حالات و مصائب سے گھبرانے کے بجائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔


فرید نظامی درگاہ حضرت نظام الدین محبوب اولیاء نے آج کے اجلاس کے ایجنڈا کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اوقاف کا تحفظ بہت ضروری ہے آج ہمارے پاس چھ لاکھ سے زائد پراپرٹی ہمارے ہیں، مگر حقیقت میں ان میں سے زیادہ اپنے مقصد میں استعمال نہیں ہورہے ہیں۔اچاریہ لوکیش منی دھرم گرو جین مندر نے اپنے تاثراتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سبھی مذاہب کا مجموعہ ہے، اس لیے یہاں اتفاق و اتحاد کی بات ہوتی ہے اور ہم اس کی بھر پور تائید کرتے ہیں۔

سردار پرم جیت سنگھ صدر گردوارہ پر بندھک کمیٹی نے کہا کہ تقسیم ہند نے صرف نفرت ہی میں اضافہ کیا ہے، آج اس کو مٹانے کے لیے سب کو جد وجہد کرنی ہے۔ بھارتیہ سرو دھرم سنسد کے صدر گوسوجامی سوشیل جی مہارا ج نے کہا کہ یہاں سب دھرموں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ اگر مسلمانوں پر آنچ آتی ہے تو ہم پر بھی آنچ آتی ہے اور ہم کو بھی دکھ ہوتا ہے-مفتی مکرم جامع مسجد فتح پوری نے کہا کہ ہم مذہبی لوگ ہیں، ہمیں کسی سے جھگڑا نہیں ہے، بلکہ ہم تو ہر جھگڑے کے مخالف ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔