جامعہ ملیہ اسلامیہ: ’ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم...‘، ایک سوال پر تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد پروفیسر معطل
بی اے (آنرس) سوشل ورک کے پہلے سیمسٹر میں ’سوشل پرابلمز اِن انڈیا‘ سبجیکٹ کے پیپر میں سوال نمبر 2 کا ایک متبادل تھا کہ ’’ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم پر مناسب مثال دیتے ہوئے بحث کریں۔‘‘

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک پروفیسر کو اس لیے معطل کر دیا گیا ہے، کیونکہ انھوں نے امتحان کے لیے ایک ایسے سوال نامہ کو منظوری دی جس میں ’ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم‘ سے جڑا ایک سوال موجود تھا۔ اس سوال سے ایک خاص ذہنیت کے لوگ چراغ پا ہو گئے، اور پھر ہنگامہ جیسا ماحول بننے کے بعد جامعہ انتظامیہ نے معاملے کی جانچ تک متعلقہ پروفیسر کو معطل کرنے کا حکم نامہ صادر کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق معاملہ گزشتہ اتوار کا ہے جب سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے پہلے سیمسٹر کا امتحان دے رہے طلبا کے سامنے ایک متبادل سوال پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم پر مناسب مثال دیتے ہوئے بحث کریں۔‘‘ یہ سوال دیکھ کر کچھ طلبا حیران ہوئے، اور جب امتحان کے بعد یہ سوال باہر آیا تو تنازعہ کی شکل اختیار کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔ ایک چنگاری بھڑکی، جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا سے لے کر ایڈمنسٹریشن تک پہنچ گئی۔ یونیورسٹی نے اس معاملے میں ’زیرو ٹولرنس‘ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے متعلقہ افسر ویریندر بالاجی کو فوری اثر سے معطل کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بی اے (آنرس) سوشل ورک کے پہلے سیمسٹر میں ’سوشل پرابلمز اِن انڈیا‘ سبجیکٹ کے پیپر میں سوال نمبر 2 کا ایک متبادل تھا کہ ’’ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم پر مناسب مثال دیتے ہوئے بحث کریں۔‘‘ اس سوال کی تصویر جیسے ہی باہر آئی، کچھ لوگوں نے پروفیسر کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانا شروع کر دیا۔ انتظامیہ نے بھی کہہ دیا کہ اس طرح کے سوال فرقہ وارانہ خیر سگالی کو متاثر کر سکتے ہیں اور یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کے خلاف ہیں۔
ایک میڈیا رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ویریندر بالاجی کو فوری اثر سے معطل کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی استاد کو امتحان کے ذریعہ سے کوئی ایجنڈا یا متنازعہ نظریہ تھوپنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جانچ پوری ہونے تک پروفیسر ویریندر بالاجی معطل رہیں گے اور انھیں یونیورسٹی کے کاموں سے دور رکھا گیا ہے۔
اس پورے معاملے کی جانچ کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی اس بات کی جانچ کرے گی کہ سوال نامہ تیار کرنے کے عمل میں کہاں غلطی ہوئی، اور کیا یہ سوال قصداً کسی خاص منشا کے تحت پوچھا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مستقبل میں سوال ناموں کے لیے مزید سخت اصول کو نافذ کیا جائے گا تاکہ اس طرح کے تنازعے دوبارہ نہ پیدا ہوں۔
مسلم اقلیتوں پر مظالم سے متعلق پوچھے گئے سوال اور پروفیسر کی معطلی کے بعد طلبا میں ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ لوگ اس بات سے حیران ہیں کہ نصاب میں ’مسلم اقلیتوں پر مظالم‘ موجود ہے تو سوال پوچھنے میں کیا دقت ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی پروفیسر کی معطلی کی حمایت اور خلاف دونوں طرح کی پوسٹ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’یہ جائز اور نصاب پر مبنی سوال حکمراں اسٹیبلشمنٹ کے حامیوں میں شدید غم و غصہ کا سبب بن گیا۔ انھوں نے فوراً جامعہ کے خلاف نفرت پر مبنی مہم شروع کر دی، جس سے ان کے اندر حقائق اور علمی تحقیق سے متعلق گہرے عدم تحفظ کا پتہ چلتا ہے۔‘‘ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’تعلیمی آزادی کا دفاع کرنے کی جگہ جامعہ نے اب سوشل ورک ڈپارٹمنٹ میں تدریس کا عمل انجام دینے والے پروفیسر وریندر بالاجی کو معطل کر دیا ہے۔‘‘