داڑھی رکھنے والے جامعہ کے بچوں کو این سی سی کیمپ سے باہر نکالا گیا

کیمپ سے نکالا جانا اس لیے افسوسناک اور شرمناک ہے کیونکہ ہمیں ہماری کسی غلطی کی وجہ سے نہیں نکالا گیا ہے بلکہ اس لیے نکالا گیا ہے کیونکہ ہمیں اپنے مذہب سے محبت ہے: دلشاد احمد

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

تنویر احمد

داڑھی رکھے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دس این سی سی کیڈٹ کو روہنی میں منعقد این سی سی کیمپ سے نکال دیا گیا ہے جس کے بعد جامعہ کے کیمپس میں طلبا و طالبات حیران و پریشان ہیں۔ حیران اس لیے ہیں کہ آخر داڑھی سے کسی کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے اور پریشان اس لیے ہیں کہ ہمارا جمہوری ملک ہندوستان کس راہ پر گامزن ہے۔ دراصل معاملہ 24 دسمبر کا ہے جب داڑھی رکھے ہوئے این سی سی کے دس لڑکوں کو یہ کہتے ہوئے کیمپ سے باہر نکال دیا گیا کہ یا تو اپنی داڑھی صاف کرو یا پھر واپس چلے جاﺅ۔ سینئرس کے اس عجیب و غریب فیصلہ سے سبھی دس لڑکے اپنی شکایت لے کر اور انصاف کی تلاش میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انتظامیہ اور چیف پراکٹر سے بار بار اپیل کر رہے ہیں لیکن ہنوز نہ کسی افسر کے خلاف کارروائی ہو سکی ہے اور نہ ہی متاثرہ بچوں کو کیمپ میں دوبارہ شامل کرنے کا فیصلہ لیا جا سکا ہے۔ انصاف حاصل کرنے کے لیے سبھی دس بچوں نے بھوک ہڑتال بھی کر دیا ہے اور مثبت قدم اٹھائے جانے تک کچھ بھی نہ کھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

پورے معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے ’قومی آواز‘ کا نمائندہ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس پہنچا تو گارڈ نے یہ کہہ کر اندر داخل ہونے سے منع کر دیا کہ پراکٹر صاحب نے صرف انہی لوگوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت دی ہے جن کے پاس یونیورسٹی کا شناختی کارڈ ہے، میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی ظاہر کی گئی۔ کسی طرح روہنی کیمپ سے نکالے گئے تھرڈ ائیر کے کیڈٹ محمد حمزہ احمد کو کیمپس سے باہر بلا کر ان سے تفصیلات حاصل کی گئی۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ سے بتایا کہ ”میں اب تک کم و بیش 30 کیمپ میں شامل ہو چکا ہوں لیکن کبھی کسی طرح کی پریشانی پیش نہیں آئی۔ میں نے اے ڈی سی کیمپ اور سی اے ڈی سی کیمپ میں بھی شرکت نہیں کی لیکن پچھلے ایک سال سے حالات بہت بدل گئے ہیں جب سے ہمارے نئے کمانڈنگ آفیسر (سی او) نے عہدہ سنبھالا ہے۔“

محمد حمزہ احمد نے روہنی کیمپ سے نکالے جانے سے متعلق تفصیل دیتے ہوئے بتایا کہ ”روہنی میں 19 سے 28 دسمبر تک ایک انتہائی اہم کیمپ منعقد ہوا ہے جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے این سی سی کیڈٹ نے شرکت کی۔ پہلے دن تو سب کچھ ٹھیک رہا لیکن دوسرے دن ہمارے سینئرس کہتے ہیں کہ کیمپ میں داڑھی نہیں چلے گا اس لیے آپ لوگ ایک خط لکھ کر دیجیے۔ ہم نے ان کی بات مانتے ہوئے سینئرس کے نام خط لکھ دیا جو کہ پانچ دن بعد ان تک پہنچا۔“ حمزہ نے مزید بتایا کہ ”پانچویں دن ہمارے سینئرس نے ان سبھی کیڈٹ کو خط پر دستخط کرنے کے لیے کہا جو داڑھی رکھے ہوئے تھے۔ چونکہ ہمیں اپنے سینئرس کی بات ماننی ہوتی ہے اس لیے سبھی نے خط پر دستخط کر دیا۔ اس کے بعد سینئرس نے سبھی دس داڑھی والے لڑکوں کو ایک کنارے کرتے ہوئے انھیں کہا کہ یا تو داڑھی صاف کیجیے یا کیمپ سے الگ ہو جائیے۔“

داڑھی رکھنے والے جامعہ کے بچوں کو این سی سی کیمپ سے باہر نکالا گیا

روہنی کیمپ سے نکالے گئے ایک دوسرے این سی سی کیڈٹ دلشاد احمد سے جب نامہ نگار بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ”این سی سی میں ایسا کوئی آرڈیننس یا آرٹیکل نہیں ہے جس میں داڑھی صاف کرنے کا کوئی تذکرہ ہو۔ کیمپ سے نکالا جانا اس لیے افسوسناک اور شرمناک ہے کیونکہ ہمیں ہماری کسی غلطی کی وجہ سے نہیں نکالا گیا ہے بلکہ اس لیے نکالا گیا ہے کیونکہ ہمیں اپنے مذہب سے محبت ہے۔“ جذباتی انداز میں دلشاد نے مزید کہا کہ ”ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ زمانے سے رکھی گئی داڑھی کو صاف کروا لیں، ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور جب ہمارے ملک کا آئین ہمیں داڑھی رکھنے کی اجازت دیتا ہے تو کیونکر ہم داڑھی صاف کرائیں۔“

جہاں تک روہنی میں منعقد کیمپ کا سوال ہے، وہاں این سی سی کیڈٹ کو آرمی کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور کس طرح انھیں جنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ان سے طریقوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ فوج کے ضابطہ اخلاق اور رہن سہن کے طریقوں سے متعلق بھی کیڈٹس کو جانکاری مہیا کی جاتی ہے۔ اس کیمپ میں شامل ہونا محمد حمزہ احمد اور دلشاد احمد کے لیے انتہائی اہم اس لیے بھی تھا کیونکہ یہ دونوں ہی ’سی سرٹیفکیٹ‘ کا امتحان دینے والے ہیں اور اس میں شامل ہونے کے لیے کیمپ مکمل کرنے کا سرٹیفکیٹ ملنا بہت ضروری ہے ورنہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ محمد حمزہ احمد کا کہنا ہے کہ ”اگر روہنی کیمپ کا سرٹیفکیٹ ہمیں نہیں ملتا تو ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ ہمارے لیے ایک پریشانی تو یہ بھی ہے کہ ’بی سرٹیفکیٹ‘ بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے اور یہ ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔“

جب محمد حمزہ سے یہ سوال کیا گیا کہ انھوں نے روہنی میں اپنے سینئرس سے بات چیت کرنے کی کوشش کی یا نہیں، تو انھوں نے کہا ”ہم نے وہاں موجود منوج سر سے اس سلسلے میں گفتگو کی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ پانچویں روز بوقت شب جب سینئرس ہمیں کہتے ہیں کہ داڑھی صاف کر لیں یا پھر واپسی کے لیے تیار ہو جائیں، تو ہم ششدر رہ جاتے ہیں۔“ حمزہ نے مزید بتایا کہ ”اگلی صبح ہم باہر نکلنے کی جگہ پریکٹس کلاس میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن سینئرس نے پریکٹس کے بعد سبھی داڑھی والے لڑکوں کو مین گیٹ کے باہر کھڑا کیا اور کہا کہ جو داڑھی صاف کرنے کے لیے تیار ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں اور بقیہ دوسری طرف۔ یہ سن کر ہم سبھی دس کیڈٹ ایک طرف کھڑے ہو جاتے ہیں اور داڑھی صاف کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں واپس جانے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن ہم دروازے پر ہی بیٹھ جاتے ہیں۔“ مزید تفصیل بتاتے ہوئے حمزہ نے کہا کہ ”کیمپ میں شامل ہونے کے بعد بلا اجازت کسی بھی کیڈٹ کا باہر نکلنا ضابطہ کے خلاف ہوتا ہے اس لیے ہم نے موومنٹ آرڈر فراہم کرنے کے لیے کہا لیکن وہ بھی نہیں دیا گیا۔ چونکہ بغیر آرڈر واپس ہونے کے بعد ہم پر بھاگ جانے یا اسی طرح کا کوئی دوسرا غلط الزام لگایا جا سکتا تھا اس لیے کسی طرح سی او صاحب کا نمبر حاصل کر چھ بجے شام انھیں کال کیا۔ اس کے باوجود سینئرس ہمیں اسٹامپ پر لکھ کر موومنٹ آرڈر دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ جب سینئرس نے پولس بلا کر ہٹانے کی بات کہی تو ہم لوگ مجبوراً واپس ہوئے۔ لیکن ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کا عزم کیا۔“

سبھی دس کیڈٹ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ پہنچ کر انتظامیہ سے اور پروکٹر سے بات کی لیکن کوئی مثبت نتیجہ نہیں دیکھ کر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ دوپہر کے بعد جامعہ کے چیف پراکٹر پروفیسر ہارون سجاد نے ان کا بھوک ہڑتال ختم کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک پروفیسر رجنیش کمار (اے این او، جامعہ ملیہ اسلامیہ) کمار کو برخاست نہیں کیا جاتا اور روہنی کیمپ کا سرٹیفکیٹ دینے کا وعدہ نہیں کیا جاتا ہڑتال ختم نہیں ہوگا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چیف ہارون سجاد سبھی دس بچوں کو لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد کی رہائش گاہ پر روانہ ہوئے ہیں۔

اس پورے معاملے میں حیرانی کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس ذہنیت کے لوگ بہت خوش ہیں اور قصوروار افسران کی جگہ متاثرہ بچوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جامعہ کے این این سی سی شعبہ میں اہم عہدہ پر فائز اور جغرافیہ میں گریجویشن کے طالب علم ابھجیت رائے نے کئی لوگوں کے سامنے بار بار یہ دہراتے ہوئے دیکھے گئے کہ ”یہ اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور ملائم سنگھ کی حکومت نہیں ہے، یہ مودی کی حکومت ہے۔“ اس طرح کے بیانات سے جہاں ملک کی تبدیل ہو رہی فضا کا اندازہ ہوتا ہے وہیں مسلمانوں میں خوف کا بھی عالم ہے۔

بہر حال، داڑھی کے سبب کیمپ سے نکالے جانے کی خبر نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گہما گہمی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ جامعہ اسٹوڈنٹ فورم کے صدر میران حیدر نے اس معاملے کو ملک میں نفرت پھیلانے کی کوشش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”اس واقعہ سے متاثرین کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ یہ معاملہ محض نفرت پھیلانے کی کوشش ہے جس کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ میری گزارش ہے جامعہ کے وائس چانسلر اور متعلقہ افسران سے کہ پورے معاملے کی تحقیق کرائی جائے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ دوبارہ اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ ”بریگیڈیر عثمان اور حامد جیسے حب الوطن نے پاکستان کے ساتھ جنگ میں شہادت حاصل کی اس لیے کسی مسلمان کو شک کی نگاہ سے دیکھنا قطعی مناسب نہیں۔“

بھوک ہڑتال کر رہے این سی سی کیڈٹس کے پاس موجود ایک ریسرچ اسکالر آفتاب احمد منیری نے اس سلسلے میں کہا کہ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تفریق ہندوستان جیسے جمہوری ملک قطعی برداشت کرنے والا نہیں ہے اس لیے قصورواروں کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ چونکہ 20 سال کی تاریخ میں ابھی تک داڑھی رکھنے کی وجہ سے کسی کیڈٹ کو کیمپ سے باہر نہیں کیا گیا اس لیے یہ معاملہ کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔“

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Dec 2017, 7:54 PM