’اسلامی بینکنگ نظام ملک کی معیشت کے لیے سودمند‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’’سود کو برا صرف مذہب اسلام میں نہیں کہا گیا ہے بلکہ تمام مذاہب میں اس کو برا ہی تصور کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں اس برائی کے بے پناہ مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے اور پیسے کا بہاؤ غریب سے امیر طبقہ کی طرف ہو رہا ہے۔غریب اپنی رقم چھوٹی بچت اور میوچوئل فنڈ وغیرہ میں انویسٹ کرتا ہے جو سیدھے طور پر بینک میں چلا جاتا ہے اور بینک میں جمع یہ پیسہ بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے لئے کام آتا ہے ‘‘۔ یہ باتیں پروفیسر زبیر حسن نے ملک میں سودی بینکنگ نظام کی خامیوں اور اسلامی بینکنگ نظام کی خوبیوں کو منظر عام پر لانے کے لے جماعت اسلامی ہند اسٹڈی سرکل کی جانب سے بروز اتوار کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک مذاکرہ میں کیا۔ معروف ماہرین معیشت، طلبا، اساتذہ اور سماجی کارکنان کی موجودگی میں اس مذاکرہ میں اسلامی بینکنگ نظام کے مختلف پہلوؤں کو روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی معیشت کے لیے اس کو بے حد اہم بھی قرار دیا گیا۔

اس مذاکرہ میں پروفیسر احمد خان نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ’’گلف ممالک ہندوستان میں اسلامی بینکنگ نظام شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہر ہندوستانی ذمہ دار سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں ک آپ کے ملک میں اسلامک بینکنگ نظام کب شروع ہو رہا ہے۔ گلف ممالک اپنا سرمایہ ہندوستان میں لگانا چاہتے ہیں لیکن سودی نظام کی وجہ سے وہ مجبور ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اسلامی بینکاری موجودہ دور کی بہت اہم ضرورت ہے کیونکہ غریب و مزدور کوئی ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ان کا استحصال نہ ہو۔ ایسے ماحول میں جب کہ کسانوں کی خودکشی عام ہو گئی ہے، اسلامی بنکاری کو فراموش کرنا غلط ہوگا۔ اس سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ ملک میں اس وقت جو بینکنگ نظام موجود ہے وہ غیر انسانی ہے۔ اگر کوئی بینکنگ نظام انسان کو مساوات کے راستے پر لے جانے کی قوت رکھتا ہے تو وہ اسلامی بینکنگ نظام ہی ہے۔‘‘

’اہمیت اور تقاضے متبادل بلا سودی معیشت‘ کے عنوان سے منعقد اس سمینار کی اہمیت اس لیے اہم ہے کیونکہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے پہلے ہی اسلامی بینکنگ نظام کو اختیار کرنے کے کسی بھی امکان سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک آر ٹی آئی کے جواب میں بھی آر بی آئی نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’آر بی آئی نے ملک میں شریعہ کے اصولوں پر چلنے والے بینکنگ نظام کو شروع کرنے کی تجویز پر آگے کوئی کارروائی نہیں کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔‘‘ اس جواب میں آر بی آئی نے مزید لکھا کہ ’’سبھی لوگوں کے سامنے بینکنگ اور مالی خدمات کے یکساں مواقع پر غور کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔‘‘ لیکن اسلامی بنکاری کے حق میں مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یکساں مواقع کی فراہمی موجودہ بینکنگ نظام میں ممکن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے مذاکرہ میں وقار انور نے کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اسلامی بینکنگ نظام ملک کی معیشت کو صحیح ڈگر پر لے جانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف انسانی زندگی کے سماجی و اخلاقی معیار بلند ہو سکیں گے بلکہ سماج کے اندر سے جرم، بے ایمانی، بدعنوانی اور بے اعتدالی کا خاتمہ بھی ہوگا۔‘‘ انھوں نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ ’’ملک میں سودی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دولت سمٹ کر محض 8 فیصد لوگوں کے قبضہ میں جا چکی ہے اور انھوں نے دنیا میں اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ غریبوں و مزدوروں کا صرف استحصال ہو رہا ہے، وہ نیا کاروبار شروع کرنے یا اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قرض لینے کی ہمت نہیں کر پاتے۔‘‘

اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ نے پیر کو جب جماعت اسلامی ہند کے مشیر مالیات وقار انور سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’’ادارہ نے دہلی اور ہریانہ میں ایک سروے کرایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم طبقہ کی بڑی تعداد چھوٹے یا درمیانے درجہ کے کاروبار سے منسلک ہے لیکن کاروبار کو فروغ دینے کے لیے بینک سے قرض لینا نہیں چاہتے۔ وجہ صاف ہے کہ سود کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ وقار انور نے بینک میں جمع پیسوں سے حاصل سود سے متعلق مسلمانوں کے رویہ پر کرائے گئے سروے کے متعلق بھی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایسے لوگ انتہائی کم ہیں جو سود کا پیسہ فلاحی کاموں میں لگاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ انھیں سود کے بارے میں پتہ ہی نہیں یا پھر وہ لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Nov 2017, 12:31 PM