’مودانی راج‘ میں بغیر منظوری کٹ رہے درخت، قبائلی حقوق پامال: جے رام رمیش
کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے الزام لگایا کہ مدھیہ پردیش کے دھیرولی کول بلاک میں اڈانی گروپ بغیر اسٹیج-6 جنگلاتی منظوری کے درخت کاٹ رہا ہے، ایف آر اے قوانین اور گرام سبھا کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے

مدھیہ پردیش کے دھیرولی علاقے میں کوئلہ کان کنی کے منصوبے کو لے کر سیاسی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور رکنِ راجیہ سبھا جے رام رمیش نے الزام عائد کیا ہے کہ اڈانی گروپ کو ’مودانی راج‘ کے تحت کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے اور بغیر قانونی منظوری کے جنگلات اجاڑے جا رہے ہیں۔
جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دھیرولی کول بلاک میں بڑے پیمانے پر پیڑوں کی کٹائی شروع ہو گئی ہے، حالانکہ اس منصوبے کو اب تک اسٹیج-6 جنگلاتی منظوری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایف آر اے (جنگلاتی حقوق ایکٹ 2006) اور پیشا ایکٹ 1996 جیسے اہم قبائلی قوانین کی بھی کھلی توہین ہے۔
ان کے مطابق دھیرولی علاقہ پانچویں شیڈول کے تحت آتا ہے، جہاں آئین نے قبائلی برادریوں کو خصوصی اختیارات اور خود حکمرانی کا حق دیا ہے۔ لیکن حکومت اور کمپنی نے گرام سبھاؤں سے کوئی مشاورت تک نہیں کی۔ پیشا ایکٹ کے مطابق کسی بھی زمین کے حصول یا جنگلاتی وسائل کے استعمال کے لیے گرام سبھا کی منظوری لازمی ہے۔ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں میں بھی گرام سبھا کو فیصلہ ساز ادارہ قرار دیا گیا ہے، لیکن یہاں دیہی برادری کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
جے رام رمیش نے مزید کہا کہ ایف آر اے کے تحت یہ اختیار گرام سبھا کا ہے کہ وہ طے کرے کہ آیا جنگلاتی زمین کو غیر جنگلاتی استعمال کے لیے منتقل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ لیکن نہ تو مقامی برادریوں سے رائے لی گئی اور نہ ہی ان کے اعتراضات کو سنا گیا۔ ان کے مطابق تقریباً 3,500 ایکڑ بنیادی جنگلاتی زمین کے ڈائیورشن کے لیے وزارتِ ماحولیات، جنگلات و آبی تغیرات سے ابھی تک اسٹیج-6 منظوری نہیں ملی ہے، اس کے باوجود اڈانی گروپ وہاں درختوں کی کٹائی اور زمین خالی کرانے کے کام میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے کے کئی خاندان پہلے بھی ترقیاتی منصوبوں کے سبب بے گھر ہو چکے ہیں اور اب ایک بار پھر انہیں بے دخلی کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف زمین چھین رہا ہے بلکہ مہوا، تند، دواؤں اور ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی جیسے وسائل بھی ختم کر دے گا، جن پر مقامی قبائل کی روزی روٹی منحصر ہے۔ ان جنگلات کا مذہبی اور ثقافتی پہلو بھی ہے، اس لیے ان کا تباہ ہونا قبائلی شناخت پر بھی براہِ راست حملہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، کمپنسٹری افاریسٹیشن اس نقصان کا حقیقی متبادل نہیں ہو سکتا۔
جے رام رمیش نے 2019 میں کول بلاک کے الاٹمنٹ کو بھی غیر جمہوری قرار دیا اور کہا کہ اب 2025 میں بغیر ضروری منظوریوں کے اڈانی گروپ کو بے قابو انداز میں آگے بڑھنے دیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین اور قبائلی وقار کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان کے بقول، "اڈانی اب خود ایک قانون بن چکا ہے۔"
مقامی دیہاتوں کے لوگ، خاص طور پر درج فہرست قبائل اور پی وی ٹی جی (خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروہ) کے افراد سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ گرام سبھا کی منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کی جائے اور منصوبے کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔