آسام: زبیدہ بیگم کے پاس 15 دستاویزات موجود، شہریت ثابت کرنے میں پھر بھی ناکام!

آسام میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جس کے بارے میں سن کر سبھی حیران ہیں۔ زبیدہ بیگم نامی خاتون نے اپنی اور اپنے شوہر کی شہریت ثابت کرنے کے لیے 15 دستاویزات پیش کیے، پھر بھی وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پورے ہندوستان میں این آر سی لگائے جانے اور اس کے اثرات پر بحث جاری ہے۔ آسام میں این آر سی سے پیدا مشکلات کو سامنے رکھ کر لوگ پورے ملک میں این آر سی لگائے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آسام میں کئی معاملے سامنے آ چکے ہیں جس میں برسوں سے وہاں رہے لوگوں کو شہریت ثابت کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ تازہ معاملہ زبیدہ بیگم نامی خاتون کا ہے جو اپنی اور اپنے شوہر کی شہریت ثابت کرنے کے لیے 15 طرح کے دستاویزات لے کر فورنرس ٹریبونل پہنچی، لیکن انھیں شکست ہاتھ لگی۔ خاتون نے جب اس معاملے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

ہائی کورٹ نے خاتون کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’’بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات، پین کارڈ اور اراضی کی رسید جیسے دستاویزوں کا استعمال شہریت ثابت کرنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ جب کہ آسام انتظامیہ کے ذریعہ قابل قبول دستاویزوں کی فہرست میں اراضی اور بینک اکاؤنٹس سے جڑے دستاویزات کو شامل رکھا گیا ہے۔


این ڈی ٹی وی پر شائع رپورٹ کے مطابق آسام میں رہنے والی 50 سالہ زبیدہ بڑی مشقتوں والی زندگی گزار رہی ہے اور کسی طرح اپنے کنبہ کی پرورش کر رہی ہے۔ وہ خود کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کی لڑائی تنہا لڑ رہی ہے۔ مفلسی کی زندگی گزار رہی زبیدہ کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ قانونی لڑائی نہیں لڑ سکتی۔ بتایا جاتا ہے کہ زبیدہ گواہاٹی سے تقریباً 100 کلو میٹر دور بکسا ضلع میں رہتی ہے۔

زبیدہ بیگم نے میڈیا سے اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنی فیملی کی واحد کمانے والی رکن ہوں۔ شوہر کافی وقت سے بیمار ہیں۔ تین بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی حادثے میں موت ہو چکی ہے۔ ایک بیٹی لاپتہ ہو گئی ہے جس کی جانکاری نہیں مل پا رہی ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی پانچویں درجہ میں پڑھ رہی ہے۔ میں اس کے مستقبل کو لے کر بہت پریشان ہوں۔‘‘ زبیدہ مزید کہتی ہیں کہ ’’میری کمائی کا تقریباً پورا حصہ قانونی لڑائی میں خرچ ہو گیا ہے۔ ایسے میں بیٹی کو کئی رات بھوکے ہی سونا پڑا۔ مجھے فکر ہے کہ میرے بعد اس کا کیا ہوگا؟ میں خود کے لیے امید کھو چکی ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Feb 2020, 3:11 PM