ایران اسرائیل جنگ: ’محاذ جنگ پہ لایا ہوں ساتھ چند گلاب، دعا کرو کہ یہ ہتھیار کارگر ہو جائے‘

ایران پر اسرائیلی حملوں نے دونوں ممالک کی سیاست کو نئی سمت دی ہے، جنگ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں جبکہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت کسی ایک فریق کی حمایت کر رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

سید خرم رضا

اسرائیل نے جب 13 جون کو ایران پر حملہ کیا تھا تو اس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کو یہ دن دیکھنا پڑے گا۔ اس کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ہی دن حملوں سے ایران کی کمر ٹوٹ جائے گی اور اس کو تھوڑی بہت پریشانی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی مل جائے گی لیکن جس انداز سے ایران نے اپنے نقصانات کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی اس نے نہ صرف اسرائیل کو بلکہ پوری دنیا کو حیرانی میں ڈال دیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کے ان حملوں سے نیتن یاہو کو زبردست فائدہ ہوا ہے۔ اس کی مقبولیت پر سوال کھڑے ہوئے تھے اور اس کو اور اس کی سیاسی جماعت کو وہاں کے عوام ہرانے کے لئے تیار تھے، اب وہی عوام ایران کے خلاف اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور نیتن یاہو کے تمام گناہ معاف کرتے ہوئے ایران کے تعلق سے اس کی حکمت عملی کی واہ وہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے مخالفین بھی اس وقت نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ایران کا بھی ہے کیونکہ وہاں بھی جو تھوڑی بہت عوام میں حکومت کے خلاف ناراضگی تھی وہ بھی اسرائیلی حملوں کے بعد حکومت کے ساتھ اپنی ناراضگی کو چھوڑ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ جتنے حملے اسرائیل کر رہا ہے اس سے وہاں کی حکومت کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔


ایران اور اسرائیل دونوں کو فی الحال سیاسی فائدہ ہوتا دکھ رہا ہے لیکن جنگ کس سمت میں چلتی ہے اور اس کا خاتمہ کس انداز سے ہوتا ہے وہ طے کرے گا کہ دونوں میں سے کون فائدے میں رہا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جنگ سے عام لوگوں کا صرف اور صرف نقصان ہی ہوتا ہے چاہے وہ جانی ہو یا پھر معاشی۔ اسرائیل کے ان حملوں نے سماج کو حصوں میں تو تقسیم کر ہی دیا ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس خواب کو پہنچایا ہے جس میں وہ اپنے لئے امن کے مسیحا کا اعزاز دیکھ رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ہوں یا وہ ممالک جو اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہیں ان کو صرف اور صرف اپنے معاشی اور سیاسی  فوائد نظر آ رہے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں یا حق کے مخالف ہیں۔

یوروپی ممالک جو غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے وہ سب کے سب اب اسرائیل کے ایران پر کئے گئے حملوں پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل کے پیچھے یا ساتھ کھڑے ہونے میں ان کو دو فائدے نظر آ رہے ہیں ایک تو معاشی اور دوسرا یہ کہ ایران کو کسی بھی قیمت پر طاقتور نہ ہونے دینا۔ دوسرا مقصد ان کے لئے زیادہ اہم ہے کیونکہ اگر ایران کامیاب ہو جاتا ہے تو کل کو وہ اتنا طاقتور ہو جائے گا کہ ان کے لئے پریشانی کا سبب بن جائے گا۔ خود امریکی صدر ٹرمپ جس الجھن کا شکار ہیں اس میں وہ اسرائیل اور ایران کو اتنا طاقتور نہیں ہونا دینا چاہتے کہ ان کی چودھراہٹ پر بھی خطرے کے بادل منڈرانے لگیں۔ روس جہاں یوکرین میں مغربی ممالک کی حمایت کا بدلہ لینا چاہتا ہے وہیں چین کو بھی دنیا پر اقتصادی تسلط قائم کرنے کے لئے یہ جنگ سودمند نظر آ رہی ہے۔


خلیجی ممالک اور دیگر اسلامی ممالک اس بحرانی کیفیت کا شکار ہیں کہ وہ کریں تو کیا کریں کیونکہ ان ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف ہیں اور حکمراں اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ کے ساتھ ہیں۔ ان ممالک کی حکومتوں کو یہ بھی ڈر ستائے جا رہا ہے کہ اگر ایران کامیاب ہو گیا تو ایران کی مقبولیت میں تو اضافہ ہوگا ہی لیکن وہ زیادہ خوفزدہ ہیں ایران کی وسعت پر مبنی سیاست سے۔ اگر یہ ممالک ایران کا ساتھ نہیں دیتے تو ان کے خلاف ان کے عوام کھڑے ہو سکتے ہیں۔

پہلے ہر جنگ کسی کی شکست میں یا فتح میں ختم ہوتی تھی اور اس زمانے کی جنگیں بھی مختلف قسم کی ہوتی تھیں لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اب کی جنگوں کی شکل ہی بدل دی ہے، جس کی وجہ سے اس کے نتائج بھی بدل گئے ہیں۔ جاری جنگ کا حل جنگ بندی یعنی سمجھوتہ میں ہی نظر آتا ہے کیونکہ کوئی ملک کسی ملک پر تو قبضہ نہیں کر سکتا، کامیابی کی صورت میں صرف اور صرف حکمرانوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔ سمجھوتہ سے جہاں تمام قوتوں کے سر پر لٹکی تلوار ہٹ سکتی ہے، وہیں سب کو جائز مقام بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ بہرحال نیتن یاہو کی طرز سیاست کا دور ختم ہونا چاہئے اور پوری دنیا میں امن قائم ہونا چاہئے  تاکہ بچے اپنے خواب پورا کر سکیں، جوان اپنی محبت کو پروان چڑھا سکیں اور بزرگ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل سکیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

محاذ جنگ پہ لایا ہوں ساتھ چند گلاب

دعا کرو کہ یہ ہتھیار کارگر ہو جائے

سنا رہا ہوں تجھے داستان عرض و نیاز

خدا کرے کہ ترے دل پہ کچھ اثر ہو جائے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔