کیا ’ٹیلے والی مسجد‘ دراصل ’لکشمن ٹیلہ‘ ہے؟ مسلم فریق کو لگا جھٹکا، عدالت ہندو فریق کی عرضی پر سماعت کو تیار

ٹیلے والی مسجد سے متعلق مسلم فریق کی ریویزن پٹیشن کو عدالت نے خارج کر دیا اور کہا کہ ہندو فریق کا مقدمہ قابل سماعت ہے، ہندو فریق نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ٹیلے والی مسجد دراصل مندر توڑ کر بنی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ٹیلے والی مسجد</p></div>

ٹیلے والی مسجد

user

قومی آوازبیورو

گیانواپی اور لاکشاگرہ کے بعد اب ٹیلے والی مسجد کو لے کر عدالت میں سماعت کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ واقع لکشمن ٹیلہ تنازعہ پر سول کورٹ نے بدھ کے روز انتہائی اہم فیصلہ سنایا جو کہ مسلم فریق کے لیے ایک شدید جھٹکا تصور کیا جا رہا ہے۔ دراصل ٹیلے والی مسجد کے تعلق سے مسلم فریق نے ریویزن پٹیشن عدالت میں داخل کی تھی جسے خارج کر دیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہندو فریق کا مقدمہ قابل سماعت ہے۔

دراصل ہندو فریق نے ٹیلے والی مسجد کو لکشمن ٹیلہ بتاتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی تھی۔ داخل عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیلے والی مسجد دراصل مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ اورنگ زیب کے وقت میں لکشمن تیلہ منہدم کر وہاں پر ٹیلے والی مسجد بنائی گئی تھی۔ ثبوت کے طور پر بتایا گیا تھا کہ مسجد کی دیوار کے باہر شیش ناگیش پاتال، شیش ناگیش تلکیشور مہادیو اور دیگر مند واقع ہیں۔ اسے عدالت نے قابل سماعت قرار دیا تھا جس پر مسلم فریق نے ریویزن پٹیشن داخل کیا تھا، اور آج سماعت کے دوران عدالت نے اس کو خارج کر دیا۔


ہندو فریق نے اپنی عرضی میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ٹیلے والی مسجد کے اندر بھگوان شیش ناگ کا مندر ہے جسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ مسجد کی باؤنڈری کے باہر اب بھی شیش ناگ پٹل کوپ، شیش ناگیش تلکیشور مہادیو مندر اور پرانے ہندو مندر آج بھی موجود ہیں۔ ہندو فریق یہ بھی چاہتا ہے کہ اس مسجد کا سروے کیا جائے تاکہ پورے حالات صاف ہو سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔