پی ایم کی ’59 منٹ لون‘ اسکیم کا 4 دن میں پردہ فاش، گجراتی کمپنی وصول کر رہی چارج

وزیر اعظم کی طرف سے شروع کی گئی ’59 منٹ لون‘ اسکیم کا 4 دن میں ہی پردہ فاش ہو چکا ہے، ابتدائی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ اس اسکیم کا ٹھیکہ گجرات کی کمپنی کے پاس ہے جو فی عرضی 1180 روپے وصول کر رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کے روز چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لئے ’59 منٹ لون‘ اسکیم کی شروعات کی۔ میڈیا، رہنماؤں اور بھگتوں نے اسے ایم ایس ایم ای (انتہائی چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں) کے لئے دیوالی کا تحفہ سے تعبیر کیا۔

لیکن اسکیم کے شروع ہونے کے 4 دن بعد ہی یہ انکشاف ہوا کہ یہ دیوالی گفٹ صنعتوں کے کے لئے بلکہ گجرات کی ایک نجی کمپنی کے لئے ہے، جو ایم ایس ایم ای سے ہر درخواست پر 1000 روپے وصول کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنی لول اپلی کیشن دینے والی ایم ایس ایم ای کا تمام ڈیٹا بھی اپنے پاس جمع کرا رہی ہے اور بدلے میں صرف لون ایپلی کیشن کی زبانی رسمی دے رہی ہے۔

پی ایم کی ’59 منٹ لون‘ اسکیم کا 4 دن میں پردہ فاش، گجراتی کمپنی وصول کر رہی چارج

آؤٹ لُک میگزین کے پبلشر رہے اور کرئر 360 نام کی کمپنی چلانے والے مہیشور پیری نے ایک فیس بک پوسٹ میں سلسلہ وار طریقہ سے اس معاملہ کا انکشاف کیا ہے۔ مہیشور پیری نے پیر کے روز کیدار انل گاڈگل کی پوسٹ کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جب ’59 منٹ لو‘ کی ویب سائٹ پر ان کی عرضی جمع ہو گئی تو انہوں نے بینک منیجر سے کہا کہ پی ایم نے تو خود کہا ہے کہ 59 منٹ میں عرضی پر عمل درآمد ہو جائے گی، اس پر بینک منیجر نے مسکرا کر کہا کہ، 59 مین تو صرف رسمی منظوری کا لیٹر جاری کرنے کا وعدی کیا گیا ہے، جس میں صاف لکھا ہوتا ہے کہ آپ قرض لینے کے لائق ہیں یا نہیں یہ بعد میں طے کیا جائے گا۔ پیری لکھتے ہین کہ پہل تو یہ بات کوئی بینک منیجر صرف 2 منٹ میں بتا دیتا تھا۔

مہیشور پیری نے اس کے بعد ایک اور پوسٹ لکھی، انہوں نے لکھا کہ آخر کیسے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لون لینے کے کئے آپ کو سب سے پہلے ’59 منٹ لون‘ کی ویب سائٹ پر رجسٹریشن کرنا ہے۔ پھر لاگ ان کر کے تمام دستاویزات اپلوڈ کرنے ہیں۔ ان میں آپ کے جی ایس ٹی کی یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ بھی شامل ہیں۔ پھر کچھ سوالوں کے جواب دیتے ہوئے آپ آگے بڑھتے ہیں تو ویب سائٹ ایک لیٹر جاری کر دیتی ہ جس میں صاف لکھا ہے کہ تھیوریٹیکل طور پر آپ کی عرضی منظور کر لی گئی ہے۔ اس کے بعد آپ کو آئی ڈی No-Reply@CapitaWorld.co سے ایک میل موصول ہوتا ہے جس میں منطوری نامہ منسلک ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ویب سائٹ پر زیادہ تر عمل آٹو یعنی کہ خود کار ہیں اور کسی انسان کی اس میں دخل نہیں ہے۔ اس لیٹر کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو پروسسنگ فیس کے طور پر 1000 روپے اور اس پر تقریباً 180 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔

اس سب کے بعد بھی یہ طے نہیں ہے کہ آپ کو لون مل ہی جائے گا۔ اصل کام تو اس کے بعد شروع ہوگا۔ اب آپ کو بینک طلب کرے گا، آپ کے تمام کاغذات کی اصل کاپیاں مانگی جائیں گی، آپ کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا، اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آپ کو لون دینا ہے یا نہیں۔

لیکن جب کیپٹا ورلڈ ڈاٹ کام کے حوالہ سے تفصیلانت نکالی گیں تو حیران کن حقائق رونما ہوئے۔

- کیپٹا ورلڈ ڈاٹ کام 30 مارچ 2015 کو وجود میں آئی تھی۔

- کمپنی احمد آباد میں رجسٹرڈ ہے اور اس کا پتہ بھی وہیں کا درج ہے۔

- وجود میں آنے کے دو سال تک یعنی 31 مارچ 2017 تک کمپنی نے کوئی کام شروع نہیں کیا تھا اور اس کی کل آمدنی صرف 15000 روپے تھی۔

- اس کمپنی کے جو مصدقہ دستخط کنندہ ہیں ان کے نام جناند شاہ اور وکاس شاہ ہیں۔

- کمپنی میں ونود موڈھا نام کے ایک ڈائریکٹر ہیں، جو انل امبانی کی کپنی نرما اور کرنسی کے مشیر رہے ہیں۔

مارچ 2018 کے بعد اس کمپنی میں 4 ڈائریٹروں کی تقرری کی گئی، جن میں اکھل ہانڈا بھی شامل تھے جو 2014 میں نریندر مودی کی انتخابی تشہیر سے وابستہ تھے۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایک سرکاری منصوبہ سے ایک ایسی نجی کمپنی کیوں منسلک ہو گئی جس کے پاس نہ پیسے ہیں اور نہ ہی تجربہ! حکومت نے آخر کیوں اس کمپنی کو ہر درخواست پر 1180 وصول کرنے کی اجازت فراہم کر دی! اتنا ہی نہیں اگر آپ کا قرض منظور بھی ہو جاتا ہے تو منظور شدہ رقم کا 0.35 فیصد پروسیسنگ فیس کے طور پر بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اور ہاں، کسی بھی ایم ایس ایم ای کا جو ڈیٹا اس کمپنی نے لیا ہے اس کی سیکورٹی کی گارنٹی کا فی الحال تو کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

سوال اور بھی ہیں، مثلاً

- کیپٹا ورلڈ کس حیثیت سے قرض کی منظوری دیتے ہوئے آپ کو بینک کا راستہ دکھا رہی ہے!

- اس اسکیم کے لئے حکومت نے کس بنیاد پر کیپٹا ورلڈ کا انتخاب کیا ہے اور اسے مقرر کیا ہے!

- کمپنی کے انتخاب کے وقت کنٹریکٹ کی کیا شرائط تھیں!

- سوشل میڈیا پر اس اسکیم کو لے کر بحث شروع ہو چکی ہے اور لوگوں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کر دئے ہیں۔ یہاں تک کہ بزنیس چینلوں نے بھی اس پر سوال اٹھایا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔