کرناٹک: اقتدار نہ ملا تو ’صدر راج ‘ بھی لگا سکتی ہے بی جے پی!

ولے سنگھ رائے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فلور ٹیسٹ میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے کئی ارکان ووٹنگ میں حصہ نہ لیں یا غیر حاضررہیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا تو کرناٹک میں صدر راج بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔

کرناٹک میں انتخابی عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی بی ایس یدی یورپا نے پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کر دیا تھا کہ وہ 17 مئی کو وزیر اعلیٰ عہدے کا حلف لیں گے اور انہوں نے 17 مئی کو ایسا ہی کیا بھی۔ اگر چہ سپریم کورٹ نے فلور ٹیسٹ ایک ہفتہ بعد کرانے یا کم از کم پیر کے روز تک مؤخر کردینے کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے، اس کے باوجود یدی یورپا کی خود اعتمادی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔

بی جے پی کسی بھی قیمت پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ایک طرف ریڈی برادران کے طور پر طاقتور ’بازیگر‘ موجود ہیں تو دوسری جانب مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت ۔

کرناٹک میں حکومت سازی کے لئے اب بی جے پی کے پاس دو متبادل ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کسی طرح کوئی جوڑ توڑ کر کے اکثریت کے ہدف کو 104-105 تک لے آئے۔ اس کے لئے بی جے پی کو جے ڈی ایس اور کانگریس کے کئی ارکان اسمبلی کو ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کے لئے ’رضامند‘ کرنا پڑے گا۔ دوسترا راستہ یہ ہے کہ کم از کم 7 ارکان کو مخالف خیمہ سے توڑ لیا جائے تاکہ 224 ارکان والی اسمبلی میں اکثریت کے لئے ضروری ہدف 112 ہو جائے۔

ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اگر یہ تمام کوششیں ناکام رہیں تو کرناٹک میں صدر راج نافذ کر دیا جائے گااور اگلے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ یہاں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ اگر بی جے پی حکومت سازی میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا سب سے بڑی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دینے کا اقدام صحیح ثابت ہو جائے گا۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کے پاس کانگریس-جے ڈی ایس پر اخلاقیات اور اصولوں سے پرے موقع پرستی کی سیاست کرنے کا الزام عائد کرنے کا موقع ہے۔

جس دن کرناٹک کے نتائج آئے تھے اس دن بی جے پی کے حق میں ماحول تو بنا تھا کہ جیت کے قریب آکر بھی وہ صرف 8 سیٹ دور رہ گئی۔ لیکن کانگریس اور جے ڈی ایس کے ساتھ آنے کے بعد وہ ماحول ختم ہو گیا۔ آخری نتائج کا اعلان ہونے کے بعد پیدا شدہ حالات میں بی جے پی نے آئین کے مطابق عمل چلنے دینے کے بجائے الگ ہی راستہ اختیا رکیا۔ اگر وہ آئینی طریقہ کار اختیار کرتی تو کانگریس-جے ڈی ایس کے مشترکہ 117 ارکان اسمبلی بی جے پی کی راہ کی رکاوٹ بن جاتے۔ ایسے حالات میں سابق سنگھ پرچارک اور نریندر مودی کے لئے اپنی اسمبلی سیٹ چھوڑ چکے گورنر وجو بھائی والا نے آناً فاناً میں یدی یورپا کو حکومت سازی کی دعوت دے ڈالی۔ ساتھ ہی انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لئے 15 دنوں کا وقت دے ڈالا۔

لیکن اس سے قبل کہ گورنر اپنے اس فیصلے کو عوامی کرتے جس کی صلاح کوئی بھی ماہر قانون نہیں دیتا، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ نے کرناٹک کے نتائج کو منفرد قرار دیتے ہوئے کرناٹک کے لوگوں کا شکریہ ادا کر دیا۔ وزیر اعظم مودی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ کرناٹک کی جیت سے بی جے پی پر لگا شمالی ہندوستانی جماعت کا داغ بھی دھل گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرناٹک بھی ’کانگریس مکت‘ ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا کہتے وقت وزیر اعظم شاید یہ بھول گئے کہ کرناٹک کے لوگوں نےبی جے پی سے زیادہ کانگریس کو ووٹ دیئے ہیں ۔ غور طلب ہے کہ کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کے حصہ میں 36.2 فیصد ووٹ آئے ہیں جبکہ کانگریس کو 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اور اگر اس میں جے ڈی ایس کے ووٹوں کو بھی شامل کر دیں تو یہ فیصد 56 تک پہنچ جاتی ہے۔

لیکن اب سپریم کورٹ کی ہدایت سے صاف ہو گیا ہے کہ بی جے پی ارکان اسمبلی کو توڑنے کی جی توڑ کوشش کرے گی ، کیوں کہ اب بہت کم وقت بچا ہوا ہے، بہت ہی کم۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔