کیا دہلی کی حکومت وزیراعلیٰ کے شوہر چلا رہے ہیں؟ عام آدمی پارٹی کا سنگین الزام
عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ دہلی کی منتخب وزیراعلیٰ ریکھا گپتا کی جگہ ان کے شوہر منیش گپتا حکومت چلا رہے ہیں، جو آئین اور جمہوریت کے لیے خطرناک ہے

آئی اے این ایس
نئی دہلی: عام آدمی پارٹی (عآپ) نے وزیراعلیٰ ریکھا گپتا اور ان کے شوہر منیش گپتا کو لے کر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ 'عآپ' کی سینئر لیڈر آتشی نے دعویٰ کیا کہ دہلی کی باگ ڈور دراصل وزیراعلیٰ ریکھا گپتا کے بجائے ان کے شوہر منیش گپتا کے ہاتھ میں ہے، جو آئینی اور جمہوری نظام کے لیے باعث تشویش ہے۔
آتشی نے ایک پریس کانفرنس میں ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا، "یہ تصویر بہت کچھ کہتی ہے۔ اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ منیش گپتا دہلی کے اہم سرکاری محکموں جیسے ایم سی ڈی، ڈی جے بی، پی ڈبلیو ڈی اور ڈی یو ایس آئی بی کے اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس اختیار کے تحت ان محکموں کی میٹنگ کی صدارت کر رہے ہیں؟"
انہوں نے مزید کہا کہ یہ منظر دہائیوں پرانی اس روایت کی یاد دلاتا ہے جب گاؤں کی سطح پر خواتین سرپنچ تو منتخب ہوتی تھیں لیکن اصل اختیار ان کے شوہروں کے پاس ہوتا تھا، جنہیں 'سرپنچ-پتی' کہا جاتا تھا۔ آتشی نے کہا، "ہم نے ان روایتوں کے خلاف جدوجہد کی، خواتین کو تربیت دی تاکہ وہ خود اپنی ذمہ داری نبھا سکیں لیکن آج دہلی جیسے جدید شہر میں ہم وہی پرانا ماڈل وزیراعلیٰ کے عہدے پر دیکھ رہے ہیں۔"
عام آدمی پارٹی نے سوال اٹھایا کہ اگر ریکھا گپتا حکومت چلانے میں اہل نہیں تو پھر انہیں وزیراعلیٰ کیوں بنایا گیا؟ کیا یہی وجہ ہے کہ دہلی میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور شہریوں کو طویل پاور کٹ کا سامنا ہے؟ کیا اسی وجہ سے نجی اسکول فیس میں منمانی اضافہ کر رہے ہیں اور تعلیمی نظام زوال کا شکار ہے؟
آتشی نے کہا، ’’ایک جمہوری نظام میں اگر ایک منتخب خاتون وزیراعلیٰ کی جگہ ان کے شوہر فیصلہ سازی کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ عوامی اعتماد کی توہین بھی ہے۔‘‘
'عآپ' نے 1اس معاملے پر نائب گورنر اور صدر جمہوریہ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس پورے معاملے کی تفصیلی جانچ کی جائے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ دہلی کے عوام نے اپنا ووٹ ریکھا گپتا کو دیا ہے، ان کے شوہر کو نہیں۔ اس لیے منیش گپتا کی سرکاری معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔