سی بی آئی ججوں کو بدنام کر رہی ہے یا اس کے پاس پختہ ثبوت موجود!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

میڈیا میں آئی کچھ خبروں میں سی بی آئی کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس کے پاس ایسے 80 ٹیپ ہیں جن میں میڈیکل گھوٹالہ کے ملزمین کی بات چیت موجود ہے۔ ان میں سے کچھ بات چیت میں ملزم مبینہ طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے موجودہ ججوں کو رشوت دینے کی بات بھی کر رہے ہیں۔

سی بی آئی ذرائع نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا ہے کہ بات چیت میں ججوں کا محض نام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان ججوں نے پیسہ لیا ہے۔ سی بی آئی ذرائع کے مطابق ہو سکتا ہے کہ ملزمان ، ججوں کے نام ان کی جانکاری کے بغیر ہی استعمال کر رہے ہوں۔

وکیل اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن نے اس معاملے پر ٹوئٹ کر اپنا رد عمل پیش کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر بات چیت میں ججوں کا نام آتا ہے تو اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ اس معاملے کا انکشاف پہلی بار اگست میں اس وقت ہوا تھا جب سی بی آئی نے آناً فاناً ایک ٹی وی صحافی کو حراست میں لیا تھا اور پھر فوراً ہی انھیں چھوڑ دیا گیا۔ انڈیا ٹی وی میں کام کر چکے سینئر صحافی کے اثر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی بیٹی کی شادی میں وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی سربراہ امت شاہ تک شامل ہوئے تھے۔ لیکن میڈیکل کالج معاملہ میں نام آنے کے بعد انھوں نے انڈیا ٹی وی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس معاملے کی خبر میں ہندوستان ٹائمز نے انڈیا ٹی وی کے پروموٹر رجت شرما کے حوالے سے لکھا تھا کہ ان کے ادارہ میں کسی بھی گڑبڑی پر ’زیرو ٹولرنس‘ کی پالیسی ہے۔ یہ صحافی بنیادی طور پر لکھنؤ سے ہیں اور ان کی بی جے پی لیڈروں سے قربت ہے۔

اسی معاملے میں ستمبر میں سی بی آئی نے اڈیشہ ہائی کورٹ کے سبکدوش جج اور دہلی میں رہنے والی ایک سماجی کارکن بھاؤنا پانڈے سمیت 6 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ لیکن سبھی کو ضمانت مل گئی تھی۔ اسی سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی۔ اس عرضی پر آج (سوموار کو) سماعت بھی ہوئی اور فیصلہ کل تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے۔

عرضی دہندہ میں میڈیکل ایڈمیشن اسکینڈل میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے رشوت لینے کے الزامات کی جانچ ایک آزاد اور خصوصی ٹیم سے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سماعت اس بنچ میں ہوگی جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے تشکیل دیا ہے۔

سپریم کورٹ کی خصوصی بنچ اس عرضی پر سماعت کرے گی جس میں کسی سابق چیف جسٹس کی رہنمائی میں خصوصی جانچ ٹیم بنا کر اس معاملے کی جانچ کی گزارش کی گئی ہے جس میں میڈیکل ایڈمیشن گھوٹالہ میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں پر رشوت لینے کا الزام ہے۔ اس بنچ میں جسٹس آر کے اگروال، جسٹس ارون اور جسٹس اے ایم کھانولکر شامل ہیں۔

اس بنچ میں سپریم کورٹ کے دوسرے سب سے سینئر جج جسٹس جے چیلامیشور شامل نہیں رہیں گے۔ جسٹس چیلامیشور نے ہی اس معاملے کو سپریم کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں والی آئینی بنچ کے سامنے سماعت کرانے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے یہ حکم سی جے اے آر اور سینئر وکیل کامنی جیسوال کی عرضی پر دیا تھا۔ لیکن ایک حیرت انگیز قدم اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی ایک بنچ نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل کالج ایڈمیشن گھوٹالے کے ملزمین نے معاملے کی سماعت کر رہے ایک جج کا نام لیا ہے۔ اور چونکہ جسٹس دیپک مشرا بھی اس بنچ میں شامل ہیں جو اس معاملے میں داخل پرساد ایجوکیشن ٹرسٹ کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی، اس لیے چیف جسٹس کے اس بنچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ پرساد ایجوکیشن ٹرسٹ نے لکھنؤ میں میڈیکل کالج کو منظوری دینے کے لیے عرضی دی تھی۔

اس معاملے میں ’کمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹیبلٹی اینڈ ریفارمس‘ اور سینئر وکیل کامنی جیسوال نے عرضی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کس طرح سی بی آئی نے ستمبر میں جن چھ لوگوں کو گرفتار کیا تھا ان میں ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں پر سپریم کورٹ کے ججوں کو رشوت دینے کی سازش تیار کرنے کا الزام ہے۔

لیکن اس معاملے میں گرفتار ہائی کورٹ کے سابق جج آئی ایم کدوسی اور سماجی کارکن بھاؤنا پانڈے سمیت سبھی 6 لوگوں کو ضمانت مل گئی تھی اور سی بی آئی نے ان کی ضمانت کی مخالفت نہیں کی تھی۔ عرضی دہندہ کو شبہ ہے کہ کہیں سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں کو بدنام کرنے کے لیے سی بی آئی کا استعمال تو نہیں ہو رہا ہے؟ یا پھر سی بی آئی کی جانچ کو کوئی باہری طاقت متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟

عرضی دہندہ نے معاملے کی جانچ اور چھاپہ ماری کے دوران سی بی آئی کے ذریعہ ضبط کیے گئے دستاویز اور دیگر اشیاء پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ جسٹس چیلامیشور کی قیادت والی بنچ نے سی بی آئی کو حکم دیا تھا کہ وہ معاملے میں ضبط سبھی اشیاء عدالت میں جمع کرائے۔ لیکن جسٹس چیلامیشور کا حکم منسوخ ہونے کے بعد جو بھی مبینہ ثبوت ہیں ان کے بارے میں بھی اب غیر یقینی بن گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔