ایران: بڑے پیمانے پر مظاہرین کا کریک ڈاؤن، 100 رہنما گرفتار

ایرانی پولس نے ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران احتجاج کرنے والے 100 سرکردہ لیڈروں کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ایرانی پولس نے ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران احتجاج کرنے والے 100 سرکردہ لیڈروں کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایرانی عدلیہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب نے ملک بھر میں 100 مظاہرین لیڈروں کو گرفتار کیا ہے۔


’ایران انٹرنیشنل عربیبک‘ چینل کے مطابق جمعہ کے روز سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنی ای کے مندوب اور تہران کی جامع مسجد کے خطیب احمد خاتمی نے کہا ہے کہ پر امن احتجاج ہر ایک کا حق ہے اور کسی کو پُر امن احتجاج سے نہیں روکا گیا۔ انہوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی تردید کی اور کہا کہ مظاہرین کی آڑ میں ان کی صفوں میں موجود شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو احتجاج کی گاڑی میں سوار ہو کرملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اپنے خطبے کے دوران پرتشدد احتجاج کرنے والوں کو "دشمن" کے ایجنٹ قرار دیا اور کہا کہ اس احتجاج اور فسادات کی منصوبہ بندی تین سال قبل کی گئی۔ فسادات کے لیے اندرون اور بیرون ملک لوگوں کو تربیت فراہم کی گئی۔ یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب ایرانی عدالتی حکام نے مظاہرین کو "سخت" نوعیت کی پابندیوں میں جکڑنے کا عزم کیا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے جمعہ کے روز اعتراف کیا کہ پہلے دن 28 صوبوں اور 100 شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ ایرانی میڈیا نے پاسداران انقلاب کے نائب کمانڈر ان چیف کے حوالے سے بتایا کہ ہم 48 گھنٹوں کے اندر بدامنی روکنے میں کامیاب ہوگئے۔


ادھر ایران کے صوبہ اھواز میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کے ایک گروپ نے ملک میں مظاہروں کے دوران طاقت کے استعمال کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی انکوائری کمیشن بھیجنے، حقائق تلاش کرنے اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران میں احتجاجی مظاہروں کے آغاز سے ہی صوبہ اہواز کے قصبوں اور شہروں میں 60 سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ ایرانی حکام نے اہواز کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔

تنظیم نے ایرانی حکومت کی زیادتیوں کی مذمت کی جس کے نتیجے میں قتل عام ہوا اورعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ تہران پر ہلاکتوں کے اصل اعداد و شمار سامنے لانے کے لیے دباؤ ڈالے۔ ایران کی قومی مزاحمتی کونسل نے اپنی طرف سے ہلاک اور زخمی ہونے والے مظاہروں کے بارے میں بتایا کہ ان مظاہروں کے نتیجے میں 20 شہروں میں 251 اموات ہوئیں جب کہ سیکورٹی فورسز کے حملوں میں 3700 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مزاحمتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ سیکورٹی فورسز نے 7000 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تشدد کے دوران ایک 13 سالہ بچے کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ ایران میں گزشتہ ہفتے اس وقت ملک گیر احتجاج کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیموں میں دو سو فی صد اضافہ کر دیا تھا۔

(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔