ڈی پی ایس دوارکا کے طلبا کو عبوری راحت، کاٹے گئے ناموں کو واپس لینے کی اسکول کو دہلی ہائی کورٹ کی ہدایت

عدالت نے بچوں کے سرپرستوں کو بھی ہدایت دی ہے کہ محکمہ تعلیم اس معاملے پر جب تک کوئی فیصلہ نہیں کر لیتا تب تک وہ بڑھی ہوئی فیس کا 50 فیصد پیسہ اسکول فیس کے طور پر جمع کریں۔

دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

 ڈی پی ایس دوارکا اور 100 سے زائد سرپرستوں کے درمیان فیس اضافہ کے تنازعہ میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک نیا عبوری حکم دیا ہے جس میں اسکول کو سبھی نام کاٹے گئے بچوں کو واپس لینے کے لیے کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کے ماں-باپ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ بڑھی ہوئی فیس کا 50 فیصد پیسہ اسکول فیس کے طور پر جمع کریں۔ ہائی کورٹ کے جسٹس وکاس مہاجن نے بدھ کی رات جاری اپنے حکم میں صاف کیا کہ 50 فیصد کی چھوٹ فیس کے بڑھے ہوئے حصے پر ہے جبکہ پہلے دی جا رہی پوری فیس سرپرستوں کو دینی ہوگی۔

جسٹس وکاس مہاجن نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام تب تک جاری رہے گا جب تک محکمہ تعلیم (ڈی او ای) یہ طے نہیں کر لیتا کہ فیس میں اضافہ صحیح ہے یا نہیں اور فیس اضافہ کے مدعے پر دائر معاملے کا نپٹارہ نہیں ہو جاتا۔ عدالت نے کہا، ’’یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ عرضی دہندگان کے بچوں کو موجودہ عرضی کے التوا میں رہنے تک اپنے متعلقہ درجوں (کلاسز) میں پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ ماں-باپ تعلیمی سال 25-2024 سے آگے کے لیے بڑھی ہوئی فیس کا 50 فیصد جمع کریں۔‘‘


واضح رہے کہ بچوں کے سرپرست بڑھی ہوئی فیس کی ادائیگی نہیں کر پائے تھے۔ طلبا کے والدین نے موجودہ تعلیمی سال کے لیے مجوزہ فیس اضافہ اور اسکول کے ذریعہ محکمہ تعلیم کے احکام پر عمل نہ کرنے پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بڑھی ہوئی فیس کی ادائیگی نہیں کرنے پر طلبا کو اسکول میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اسکول کے باہر باؤنسر لگائے گئے تھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ فیصلے ہائی کورٹ کے پہلے کے حکم کے برعکس تھے جس میں طلبا کے کے مفادات کا تحفظ کیا گیا تھا۔

سرپرستوں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم (ڈی او ای) کے احکام کی پوری طرح سے خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی پی ایس نے ابھی تک ان سے وصولی گئی اضافی اور غیر مجاز فیس واپس نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ الزام لگایا گیا ہے کہ اسکول بڑھی ہوئی فیس کا مطالبہ کرکے طلبا کے نام اسکول سے کاٹ کر اور بڑھی ہوئی فیس کی ادائیگی نہ کرنے والے طلبا کو کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے کر طلبا اور ان کے ماں-باپ کو پریشان کر رہا ہے۔


16 مئی کے ایک حکم میں عدالت نے کہا تھا کہ بڑھی ہوئی فیس کی ادائیگی نہ کرنے کی بنیاد پر طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں پریشان کیا جانا قابل قبول نہیں ہے۔ پھر بھی عدالت نے تبصرہ کیا کہ ڈی پی ایس پر اسکول فیس بڑھانے پر کوئی روک نہیں ہے بشرطیکہ اسے محکمہ تعلیم کی منظوری مل جائے۔

عدالت نے کہا، ’’جب تک محکمہ تعلیم اسکول کی مالی تفصیلات کا جائزہ نہیں کرتا اور اپنی جانچ کی بنیاد پر ’منافع خوری‘ اور ’تعلیم کی تجارت کاری‘ کے پیمانے پر تعلیمی سال 2024-2025 سے آگے کے لیے فیس اضافہ کے نظم کو خارج نہیں کر دیتا تب تک اوپر بتائے گئے قانون کے مطابق ایسی اضافی فیس پر کوئی روک نہیں ہے۔‘‘ اس لیے عدالت نے کہا ہے کہ ماں-باپ کو تب تک فیس (بڑھی ہوئی فیصد کا 50 فیصد) کی ادائیگی کرنی ہوگی جب تک کہ محکمہ تعلیم اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر لیتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔