دہلی فسادات: پروفیسر اپوروانند کی حمایت میں سامنے آئے ملک و بیرون ملک کے دانشوران

اپوروانند سے دہلی فسادات کے معاملے میں پوچھ گچھ کئے جانے اور موبائل فون ضبط کرنے کے واقعہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اور پولیس کے ذریعہ دانشوروں کو بار بار جھوٹے مقدمے میں پھنسائے جانے کی سخت تنقید کی ہے

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند / یو این آئی
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند / یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: ملک اور بیرون ملک کے ایک ہزار سے زائد معروف دانشوروں، نوکر شاہوں، صحافیوں، مصنفوں، ٹیچروں او اسٹوڈنٹس نے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے مشرقی دہلی میں فسادات کے معاملے میں پوچھ گچھ کئے جانے اور انکا موبائل فون ضبط کرنے کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور پولیس کے ذریعہ دانشوروں کو بار بار جھوٹے مقدمے میں پھنسائے جانے کی سخت تنقید کی ہے۔

پرسار بھارتی کے سابق چیئر مین جواہر چودھری ، گورنمنٹ اسٹاف سلیکشن کمیشن کے سابق چیئرمین این کےرگھوپتی، ممتاز مورخ رام چندر گوہا ، ممتاز ثقافتی کارکن اشوک واجپئی ، نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے سابقہ

ڈائرکٹر کیرتی جین ، فلم اداکارہ رتنا پاٹھک شاہ اور کیویتا سریواستو کے علاوہ امریکہ کی پرنسٹن ، مینیسوٹا یونیورسٹی ، کارنیل یونیورسٹی ، ایریزونا یونیورسٹی ، میساچوسٹس یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی ، کولکاتہ یونیورسٹی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، جادو پور یونیورسٹی ، اشوکا یونیورسٹی ، للت نارائن میتھلا یونیورسٹی اور امبیڈکر یونیورسٹی کے اساتذہ نے ایک مشترکہ بیان میں مذمت کی ہے۔ اس بیان پر 1337 سرکردہ شخصیات نے دستخط کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی عوامی تنظیموں نے بھی اس بیان دستخط کیے ہیں۔


بیان میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس کی خصوصی برانچ نے دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر پروفیسر اپوروانند سے پانچ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی اور ان کا فون بھی ضبط کر لیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک کے حالات بہت خراب ہیں اور 45 سال پہلے لگائی گئی ایمرجنسی سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جن لوگوں نے اختلاف رائے اور احتجاجی مظاہرے کا اظہار کیا ہے انہیں تشدد اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ . صرف یہی نہیں انہیں جھوٹے معاملوں میں پھنساکر کر جیل کی سزا بھی سنائی جارہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر اپوروانند سے غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کے سیکشن 43 کے تحت پوچھ گچھ کی گئی تھی اور ان پر ہندوستانی تعزیرات اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 19 کے تحت بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ پولیس کی معمولی تفتیش نہیں ہے۔

بیان کے مطابق بی جے پی حکومت کے لوگ بھیما کوریگاؤں کے معاملے میں ملک کے دانشوروں کو مستقل طور پر ہراساں کررہے ہیں ، بسااوقات ان دانشوروں کو ’اربن نکسلی‘ کہتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں پروفیسر اپوروانند کو بھی پولیس نے ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے ، لہذا ہم سب دانشور اس واقعہ پر احتجاج کرتے ہیں اور شہریوں کی آواز بلند کرنے اور جمہوریت کو بچانے کے لئے سبھی سے سامنے آنے کی اپیل کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Aug 2020, 3:11 PM