’ہیک آف ہائر‘ گروہ ہوا سرگرم، انتہائی خاموشی کے ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کا ڈاٹا ہو رہا چوری

اپّن نامی ایک کمپنی تھی جو اب بند ہو چکی ہے، سنڈے ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اپّن کے ذریعہ تربیت یافتہ ہیکروں میں آدتیہ جین تھے، جن کے خفیہ ڈاٹابیس سے پتہ چلا کہ انھوں نے قطر کے ناقدین کو ہیک کیا تھا۔

ہیک، علامتی تصویر آئی اے این ایس
ہیک، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ای میل اکاؤنٹس اور اسمارٹ فون میں سیندھ لگانے کے لیے ہندوستانی انڈرورلڈ کا استعمال ایک پرانا طریقہ بن گیا ہے، جو سالوں سے چلتا آ رہا ہے۔ اس ضمن میں برطانوی محققین نے کمپیوٹر کے غلط استعمال سے متعلق قوانین کو توڑنے والوں کو آڑے ہاتھ لینا شروع کر دیا اور ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ بیورو آف انوسٹی گیٹو جرنلزم اور سنڈے ٹائمز کی جانچ میں ’ہیک-فار-ہائر‘ گروپ برطانوی کاروباروں، صحافیوں اور سیاسی لیڈروں کو ہدف بنانے والی کارپوریٹ خفیہ کمپنیوں کے لیے لندن بھر میں غیر قانونی کمپیوٹر ہیکنگ کی حد کو ظاہر کرتا ہے۔

لیکن یہ گروہ تنہا نہیں ہے۔ انڈرکور صحافیوں نے ہندوستانی ہیکروں کی ایک سیریز کے ساتھ رابطہ قائم کیا، جنھیں خفیہ طریقے سے ان کے غیر قانونی کام اور برطانیہ میں ان کے زیر زمین صنعت کے ناپاک اثرات کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے فلمایا گیا۔ برطانیہ سے ہیکنگ کرنا غیر قانونی ہے۔ یہ جرم 10 سال تک کی جیل کی سزا کے ساتھ قابل سزا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی قانون ہے، جہاں غیر قانونی طریقے سے ہیکنگ کرنے پر تین سال تک کی جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن ہیکرس کو ان کا کوئی خوف نہیں تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کوئی ہندوستانی ہیکر پکڑا گیا ہے، انھوں نے کہا ’ایک بھی نہیں‘۔


حال کے سالوں میں کمپیوٹر سیکورٹی فرموں کے لیے وہائٹ ہیٹ ہیکرس کو تربیت دینے کا دکھاوا کرنے کی روش رہی ہے تاکہ ان کے علم کا استعمال گاہکوں کو آن لائن حملوں سے بچانے کے لیے کیا جا سکے۔ پرائیویٹ ای میل اکاؤنٹ کو ہیک کرنے اور ادائیگی کرنے کے خواہش مند بہت سے گاہکوں سے پیسہ کمایا جاتا ہے۔ ہندوستانی ہیکنگ صنعت بڑی سطح پر پھیلی ہوئی ہے۔

دراصل ایک اپّن نامی کمپنی تھی۔ مانا جاتا ہے کہ یہ ہیکرس کی ایک نئی نسل کو تربیت دینے کا کام کرتی تھی۔ حالانکہ یہ کمپنی اب بند ہو چکی ہے۔ کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے ہیکنگ کے ذریعہ دنیا بھر کے گاہکوں سے پیسے لوٹے۔ کہا جاتا ہے کہ ان گاہکوں میں برطانیہ واقع کارپوریٹ خفیہ کمپنیاں شامل تھیں۔ بیورو آف انوسٹی گیٹو جرنلزم اور سنڈے ٹائمز نے بھی انکشاف کیا کہ اپّن کے ذریعہ تربیت یافتہ ہیکروں میں آدتیہ جین تھے، جن کے خفیہ ڈاٹابیس سے پتہ چلا کہ انھوں نے قطر کے ناقدین کو ہیک کیا تھا۔


اس اخبار کے انڈرکور صحافیوں سے بات کرنے والے ایک سابق ملازم کے مطابق خلیجی ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپّن کے گاہکوں میں سے ایک تھا۔ قطر نے اس کی تردید کی ہے۔ اپّن کو برطانوی حکومت کے محکمہ تجارت کے ذریعہ منظم ایک عالمی صنعتی پروگرام میں منظور کیا گیا تھا۔ جانچ میں کہا گیا ہے کہ یہ اپّن کے بانی رجت کھرے کی مدد کرنے کے لیے پرجوش تھا، جنھوں نے برطانیہ میں ایک کاروبار قائم کیا تھا۔

برطانوی تجارتی محکمہ نے کہا کہ جب اس منصوبہ میں فرم کو منظور کیا گیا تھا تب اسے اپّن کے خلاف کسی بھی الزام کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ گزشتہ مہینے کھرے نے کہا کہ اپّن کے ساتھ ان کی شراکت داری صرف روبوٹکس، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹلیجنس) اور اتھیکل ہیکنگ سے متعلق ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔